اللہ تعالیٰ کے لیے جان کا لفظ استعمال کرنا کیسا ہے ؟
پوچھنا تھا کہ کیا الله کہ لیے جان کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے؟
الجـــــوابــــــــــــ بعون الملک الوھّاب
اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لئے ذاتی نام اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جو اللہ رب العزت کے شایانِ شان ہوں، مذکورہ صورت میں اللہ تعالیٰ کو جان کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ عرف عام میں ہم ایک دوسرے کو جان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، اس لیے اس کا استعمال اللہ رب العزت کے لیے نہیں کہنا چاہیے-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں، جس لفظ کے چند معنی ہوں اور کچھ معنی خبیث ہوں اور وہ لفظ شرع میں وارد نہ ہو تو اس کا اطلاق اللہ عزوجل پر منع ہے، علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا مجرد ایھام المعنی المحال کاف للمنع-
یعنی: صرف محال معنی کا احتمال منع کے لئے کافی ہے
اس کی مثال راعنا ہے حضور اقدس ﷺ کے ارشادات صحابہ کرام جب اچھی طرح سن نہ پاتے یا سمجھ نہ پاتے تو عرض کرتے راعنا(یعنی: ہماری رعايت فرمائیں، یہود کی لغت میں راعنا کے معنی ہمارے بے وقوف کے ہیں یہود بھی راعنا راعنا کہنے لگے اور وہ اس معنی خبیث کی نیت سے کہتے اللہ عزوجل نے راعنا کہنے سے صحابہ کرام کو منع فرما دیا حکم ہوا انظرنا کہو اسی طرح یہاں بھی خطرہ ہے آپ اللہ عزوجل کو میاں کہیں آپ کی نیت مالک کی ہوگی لیکن کوئی دھریہ بے دین دوسرے خبیث معنی کی نیت سے کہے تو کون روکے گا وہ کہہ دے گا کہ آپ بھی تو کہتے ہیں اس لیے ایسے الفاظ کے استعمال کی اجازت نہیں-
(شامی کتاب الحظر والإباحة، باب الاستهزاء جلد9 صفحہ567- مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
(بحوالہ فتاویٰ شارح بخاری جلد1 صفحہ 233 مطبوعہ دائرۃ البرکات)
(ارشاد باری تعالی ہے، سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(الصافات آیت180)
(ترجمہ: آپ کا رب جو بڑی عزت والا ہے ہر اس عیب سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں-
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ