لفظِ "سائیں” کو "اللہ پاک” اور "رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” کے لیے استعمال کرنا کیسا ہے؟

لفظِ "سائیں” کو "اللہ پاک” اور "رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” کے لیے استعمال کرنا کیسا ہے؟

جیسا کہ بہت سے کلاموں میں یہ لفظ اللہ پاک اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے استعمال ہوتا ہے.

مثلاََ "کردے کَرَم رب سائیاں”

سائل : غلام نبی قادری

الجواب بعون الملک الوہاب:

ہر وہ لفظ جس کے چند معنی ہوں، کچھ معنی اچھے ہوں اور کچھ معنی خبیث ہوں اور وہ لفظ قرآن و حدیث میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے استعمال بھی نہ ہوا ہو تو اس کو اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے استعمال کرنا ممنوع ہوتا ہے.

تو لفظِ سائیں کے کچھ معنی ایسے ہیں جو اللہ پاک اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لائق نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر نقص اور اہانت کا پہلو موجود ہے، کیونکہ لفظِ سائیں، خاوند، فقیر اور بھکاری کیلیے بھی استعمال ہوتا ہے، اسلیے اس لفظ کو اللہ پاک اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بولنا ممنوع ہوگا، اگرچہ ان کم تر معانی کی نیت سے نہ بولے ،کیونکہ اگر کوئی دہریہ بےدین ،اللہ پاک اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کم تر معانی کی نیت سے سائیں کہے گا تو اسے کون روکے گا، وہ تو یہی کہے گا کہ آپ لوگ بھی تو یہ لفظ کہتے ہیں، اسلیے کسی کو اللہ پاک اور رسول کریم صلی الله عليه وسلم کے لئے اس لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

چنانچہ شارحِ بخاری، فقیہِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"جس لفظ کے چند معنی ہوں اور کچھ معنی خبیث ہوں اور وہ لفظ شرع میں وارد نہ ہو تو اس کا اطلاق اللہ عزوجل پر منع ہے۔

علامہ شامی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا :

"مجرد ایھام المعنی المحال کاف للمنع”

(یعنی صرف محال معنی کا احتمال منع کیلیے کافی ہے)

(فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ 233 مکتبہ برکات المدینہ کراچی)

پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں :

سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 110 میں ارشاد باری تعالی ہے :

"قل ادعوا الله او داعوا الرحمن أياما تدعوا فله الأسماء الحسني”

(اے رسول ! ) آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو، اس کے سب ہی نام اچھے ہیں۔

اللہ تعالی کی ذات کو تعبیر کرنے کے لئے اسم ذات "اللہ” ہے، اس سے قریب تر صفاتی نام "الرحمن” ہے، باقی اس کے بہت سے صفاتی نام ہیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، مثلا الستار، الغفار، الروف، الرحیم وغیرہ، اللہ تعالی کی ذات کو تعبیر کرنے کے لئے جو بھی اسماء، صفات اور کلمات استعمال کئے جائیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں، "میاں” اور "سائیں” ایسے کلمات اللہ تعالٰی کی ذات کے شایان شان نہیں ہیں، کیونکہ اگرچہ استعمال کرنے والا انہیں اچھے معنوں میں استعمال کر رہا ہو، لیکن ان میں کم تر معنی کا وہم پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالٰی کے اسمِ جلالت کے ساتھ ان کلمات کا استعمال درست نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ، اللہ جل شانہ اور اللہ سبحانہ، و تعالی یا باری تعالٰی جیسے کلمات استعمال کرنے چاہئیں۔

ذیل میں ہم کتبِ لغت کے حوالے سے "میاں” اور "سائیں” کے معنی درج کررہے ہیں، ملاحظہ فرمائیے!

میاں : اردو زبان میں شوہر، خواجہ سرا، ایک کلمہ جس سے برابر والے یا اپنے سے کم درجہ شخص کو خطاب کرتے ہیں، بیٹا وغیرہ معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

(قائداللغات، فیروزاللغات)

سائیں : خاوند، فقیر، بھکاری وغیرہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

(قائداللغات)

ان معانی سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ اللہ جل شانہٗ کے شایانِ شان نہیں ہیں، ان میں سے بعض معانی ایسے ہیں جو ذاتِ باری تعالی کے لئے نقص اور اہانت کا پہلو رکھتے ہیں، لہذا ہماری رائے میں "اللہ میاں” اور "اللہ سائیں” بولنے سے بالکل گریز کرنا چاہیے اور اپنے گھروں , دفاتر , مجالس اور بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اللہ جل شانہ کا ذکر کرتے وقت اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہیے اللہ تعالی کی شان جلالت تو بہت بلند تر ہے وہ ہر نقص عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

"سبحان ربك رب العزة عما يصفون”

آپ کا رب جو بڑی عزت والا ہے، ہر اس عیب سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

(الصافات)

ذاتِ پاک رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی اللہ جل شانہ نے ایسا ذومعنی کلمہ ستعمال کرنے سے منع فرمایا، جس کے معنی شانِ رسالت کے مطابق نہ ہوں، خواہ استعمال کرنے والے کی نیت بھی درست ہو ۔

(تفہیم المسائل جلد اول صفحہ 29، 30 ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply