منفرد کیلئے اذان و اقامت کا حکم
السلام علیکم ورحمۃاللہ
سوال : اگر نمازی منفرد ہوتو تکبیر کہے گا کہ نہیں وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں؟
المستفتی:حیدر علی علیمی
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
منفرد اگر شہر میں ہو اور گھر میں نماز پڑھے تو اگر اس محلہ میں مسجد ہے جس میں اذان و اقامت ہوتی ہے تو اسے اذان و اقامت کہنا مستحب اگر دونوں کو ترک کر دیا تو کراہت نہیں لیکن اگر اس محلہ میں مسجد نہیں یا مسجد ہے مگر اذان و اقامت نہیں ہوتی یا اس وقت نہیں ہوئی تو کراہت سے بچنے کو اقامت کہنا ضروری ہے۔ اذان و اقامت کا ترک مکروہ اسی طرح اقامت کا ترک کرنا بھی مکروہ ہاں اذان کو ترک کر دیا اور اقامت کہی تو کراہت نہیں۔
اور اگر مسجد میں پڑھے تو اذان و اقامت کہنا مکروہ ہے۔
یہی احکام دیہات میں نماز پڑھنے والے کیلئے ہیں۔
ہندیہ میں ہے "ﻭﻳﻜﺮﻩ ﺃﺩاء اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﺑﺎﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺑﻐﻴﺮ ﺃﺫاﻥ ﻭﺇﻗﺎﻣﺔ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻗﺎﺿﻲ ﺧﺎﻥ ﻭﻻ ﻳﻜﺮﻩ ﺗﺮﻛﻬﻤﺎ ﻟﻤﻦ ﻳﺼﻠﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﺼﺮ ﺇﺫا ﻭﺟﺪ ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻠﺔ ﻭﻻ ﻓﺮﻕ ﺑﻴﻦ اﻟﻮاﺣﺪ ﻭاﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ ﻭاﻷﻓﻀﻞ ﺃﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻭاﻹﻗﺎﻣﺔ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﻤﺮﺗﺎﺷﻲ ﻭﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﺆﺫﻥ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ اﻟﻤﺤﻠﺔ ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻪ ﺗﺮﻛﻬﻤﺎ ﻭﻟﻮ ﺗﺮﻙ اﻷﺫاﻥ ﻭﺣﺪﻩ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻴﻂ ﻭﻟﻮ ﺗﺮﻙ اﻹﻗﺎﻣﺔ ﻳﻜﺮﻩ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﻤﺮﺗﺎﺷﻲ۔
ﻭﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﻤﺴﺎﻓﺮ ﺗﺮﻛﻬﻤﺎ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻭﺣﺪﻩ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺒﺴﻮﻁ ﻭﻟﻮ ﺗﺮﻙ اﻹﻗﺎﻣﺔ ﺃﺟﺰﺃﻩ ﻭﻟﻜﻨﻪ ﻳﻜﺮﻩ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻄﺤﺎﻭﻱ ﻓﺈﻥ ﺃﺫﻥ ﻭﺃﻗﺎﻡ ﻓﻬﻮ ﺣﺴﻦ ﻭﻛﺬﻟﻚ ﺇﻥ ﺃﻗﺎﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﺆﺫﻥ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺒﺴﻮﻁ۔
ﻭﻟﻮ ﺻﻠﻰ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﻓﻲ ﻗﺮﻳﺔ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ اﻟﻘﺮﻳﺔ ﻣﺴﺠﺪ ﻓﻴﻪ ﺃﺫاﻥ ﻭﺇﻗﺎﻣﺔ ﻓﺤﻜﻤﻪ ﺣﻜﻢ ﻣﻦ ﺻﻠﻰ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﺼﺮ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻓﻴﻬﺎ ﻣﺴﺠﺪ ﻓﺤﻜﻤﻪ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺴﺎﻓﺮ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺸﻤﻨﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻨﻘﺎﻳﺔ”(ج١،ص٥٤)۔
در مختار میں ہے” ﺃﻭﻣﺼﻞ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﺻﻼﺓ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻓﻴﻪ ﺑﻞ ﻳﻜﺮﻩ ﻓﻌﻠﻬﻤﺎ"(ردالمحتار،ج٢،ص٧٨).
واللہ تعالی اعلم
کتبـــــــــہ : مفتی شان محمد المصباحی القادری
٤ فروری ٢٠١٩