تفسیر سورہ نساء آیت ۳ ۔ وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآء ِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ

تعددازواج پرلبرل وسیکولرطبقہ کے اعتراضات کے جوابات

{وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآء ِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوٰحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمٰنُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا }( ۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ ا س سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور اگر تمہیں خوف ہوکہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر تمہیں اس بات کاخوف ہو کہ تم عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے ہی نکاح کرویا لونڈیوں پر گزارا کروجن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

تعدد ازواج اوراحادیث شریفہ

کوئی مانے یانہ مانے، مگر اہل اسلام اورامت ِمحمدی میں شامل تمام فقہاء ومحدثین اس امر پرمتفق ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا فرمان ہی قرآنِ کریم کی سب سے معتبر اورمستند تشریح وتفسیر ہے، جو معنی آیت الٰہی کا حدیث متعین کردے، وہ ہی دینی وتشریعی مفہوم قابل قبول اورمعتبر ہوگا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے قول وفعل سے ثابت کردیا کہ اسلام میں چار شادیوں کی مرد کے لئے اجازت ہے۔ جس میں نہ حالات کی تخصیص ہے اورنہ ہی کوئی اور اضطراری کیفیت کی شرط ہے، بلکہ علیٰ العموم یہ ایک فضیلت والاکام اور حصولِ ثواب واجر کامعاملہ ہے، آئیے اس ضمن میں وارد مشہور احادیث سے واقفیت حاصل کرتے ہیں ۔
پہلی حدیث شریف
عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَیْسٍ،قَالَ مُسَدَّدٌ:ابْنِ عُمَیْرَۃَ وَقَالَ وَہْبٌ:الْأَسَدِیِّ قَالَ:أَسْلَمْتُ وَعِنْدِی ثَمَانُ نِسْوَۃٍ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اخْتَرْ مِنْہُنَّ أَرْبَعًا۔
ترجمہ:حضرت سیدناالحارث بن قیس رضی اللہ عنہ جن کو قیس بن حارث بھی کہتے ہیں، فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو میری آٹھ بیویاں تھیں میں نے خود ان کی بابت حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے ذکر کیا تو آپ ﷺنے حکم دیا کہ اِن میں سے چار کو چن لو ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث الأزدی السَِّجِسْتانی (۲:۲۷۲)
یاد رہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اور اس کی سنن ابی داود میں ایک سے زیادہ اسناد منقول ہیں اس حدیث سے بھی تعدادِ ازواج کی اجازت کا حکم واضح ہے۔
دوسری حدیث شریف
عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ نَوْفَلِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ قَالَ:أَسْلَمْتُ وَتَحْتِی خَمْسُ نِسْوَۃٍ،فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:فَارِقْ وَاحِدَۃً وَأَمْسِکْ أَرْبَعًا۔
ترجمہ:حضرت سیدنانوفل بن معاویہ الرملی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں اسلام لایا تو میری پانچ بیویاں تھیں تو میں نے اس بارے میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے سوال کیا تو آپﷺنے فرمایا :چار، کو روکے رکھو اور ایک کو جدا کردو۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۹:۹۰)

تعددازواج اوراجماع امت

قرونِ اولیٰ اور بعد ازاں اہل علم کا اس امر پر اجماع رہا ہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتا ہے، جن کی ایک وقت میں آخری حد چار بیویوں کی ہے۔

ساری امت متفق ہے

وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،وَلَا بَعْدَہُ إلَی یَوْمِنَا ہَذَا أَنَّہُ جَمَعَ بَیْنَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَۃٍ نِکَاحًا۔
ترجمہ :امام محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی المتوفی:۴۸۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کی زندگی مبارکہ میں کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہے اورنہ ان کے بعد آج تک ثابت ہے کہ کسی نے چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع کیا ہو ۔
(المبسوط:محمد بن أحمد بن أبی سہل شمس الأئمۃ السرخسی (۵:۱۶۱)

مخالف اجماع کون؟

وَہَذَا کُلُّہُ جَہْلٌ بِاللِّسَانِ وَالسُّنَّۃِ،وَمُخَالَفَۃٌ لِإِجْمَاعِ الْأُمَّۃِ،إِذْ لَمْ یُسْمَعْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَلَا التَّابِعِینَ أَنَّہُ جَمَعَ فِی عِصْمَتِہِ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعٍ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ (جو اقوال وآرا چار سے زائد نکاح کے بارے میں ہیں)وہ تمام لغت ِعرب وسنت سے لاعلمی کی وجہ سے ہیں اوراُمت کے اِجماع کے مخالف ہیں۔ کیونکہ نہ کسی صحابی سے سنا گیا ہے اورنہ کسی تابعی سے کہ اس نے اپنے حرم میں چار سے زائد بیویاں جمع کی ہوں۔بعض روافض کا خیال ہے کہ مرد بیک وقت نو تک عورتیں جمع کرسکتا ہے۔ محدثین وفقہا ء اس کی تردید تو ضرور کرتے ہیں، مگر چار تک کے جواز میں کسی کا کوئی بھی قطعاًاختلاف نہیں ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۱۷)
امام العسقلانی رحمہ اللہ تعالی کاقول
قَوْلُہُ بَابُ لَا یَتَزَوَّجُ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعٍ لقَوْلہ تَعَالَی مثنی وَثَلَاث وَربَاع أَمَّا حُکْمُ التَّرْجَمَۃِ فَبِالْإِجْمَاعِ إِلَّا قَوْلَ مَنْ لَا یُعْتَدُّ بِخِلَافِہِ مِنْ رَافِضِیٍّ ۔
ترجمہ:امام أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ (صحیح بخاری میں باب ہے کہ کوئی چار سے زائد بیویاں نہیں رکھ سکتا)لیکن عنوان کا حکم بالا جماع ثابت ہے مگر رافضی وغیرہ کہ جن کے اقوال کسی شمار میں نہیں ہیں۔۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۹:۱۳۹)
امام الخازن رحمہ اللہ تعالی کاقول
وأجمعت الأمۃ علی أنہ لا یجوز لأحد أن یزید علی أربع نسوۃ وأن الزیادۃ علی أربع من خصائص رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم التی لا یشارکہ فیہا أحد من الأمۃ ویدل علی أن الزیادۃ علی أربع غیر جائزۃ وأنہا حرام۔
ترجمہ :امام علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورتمام اُمت کا اس امر پر اجماع ہے کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ چار عورتوں سے زائد رکھے۔اورچارسے زائد نکاح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خصائص میں سے ہے اوراس خصوصیت میں ساری امت میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہے اوریہ بات دلالت کرتی ہے کہ چارسے زائد نکاح کرناامتی کے لئے ناجائز اورحرام ہے ۔
(تفسیرالخازن:علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (۱:۳۳۹)

امام ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ عَلَی ہَذَا،وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا خَالَفَہُ مِنْہُمْ،إلَّا شَیْئًا یُحْکَی عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ إبْرَاہِیمَ، أَنَّہُ أَبَاحَ تِسْعًا؛ لِقَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی:(فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاء ِ مَثْنَی وَثُلاثَ وَرُبَاعَ)(النساء: ۳)وَالْوَاوُ لِلْجَمْعِ؛ وَلِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ عَنْ تِسْعٍ وَہَذَا لَیْسَ بِشَیْء ٍ،لِأَنَّہُ خَرْقٌ لِلْإِجْمَاعِ،وَتَرْکٌ لِلسُّنَّۃِ۔
ترجمہ :امام أبو محمد موفق الدین عبد اللہ بن أحمد بن محمد بن قدامۃ المتوفی : ۶۲۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس کی مخالفت کی ہو مگر جو کچھ قاسم بن ابراہیم سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے نو کی اجازت دی ہے اس وجہ سے کہ اللہ کا فرمان ہے {فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاء ِ مَثْنَی وَثُلاثَ وَرُبَاعَ}اس میں دو اورتین اورچار (کل نوہوئے )واؤ جمع کے لئے ہے اور اس وجہ سے بھی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاجب وصال شریف ہوا تو آپ ﷺکے گھرمیں نوازواج مطہرات رضی اللہ عنہن تھیں ۔(مگر )یہ قول ودلیل کوئی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ یہ اجماع کے مخالف اور خلافِ سنت ہیں۔ گویا بعض روافض کا شاذ قول ہے کہ نو تک اجازت ہے مگر چار تک اجازت کا معاملہ پوری طرح متفق علیہ ہے۔
(المغنی:ابو محمد موفق الدین عبد اللہ بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ابن قدامۃ المقدسی (۷:۸۵)
تعدد نکاح کے جوازمیں حکمت
(۱)… تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے ، اوریہ تومعلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی ، اورایک بیوی کی بنسبت اگر زیادہ بیویاں ہوں تو پھر نسل میں بھی زیادتی ہوگی ۔
اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے ، اورپھر افرادی قوت کی زیادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ حکمران ملک میں اگرتدبیری امور صحیح جاری کریں اورمواد سے صحیح طور پر نفع اٹھائیں توپھرآپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں کہ جویہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت سے زمین کے موارد کو خطرہ ہے اوروہ انہیں کافی نہیں رہیں گے ، یہ ان کی بات غلط ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حکیم و علیم ہے جس نے تعدد کومشروع کیا اوراپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائی ، اورزمین میں وہ کچھ پیدا فرمایا جوان سب کے لیے کافی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے ، اوراگرکچھ کمی ہوتی ہے تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم وزیادتی اورغلط قسم کے منصوبہ کی وجہ سے ہے۔
مثال کے طورپر آپ سکان اورافرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جوکہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے ، بلکہ کئی ہزار گناہ شمار ہوتا ہے ، اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے ، توکون ہے جوچین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اوراس کی جرات کرے ۔
(۲)…سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ، تواس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تواس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتیں شادی کے بغیر بچ جائیں گی جوکہ معاشرے اوربذات خود عورت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔
عورت ذات کوجو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جواس کی ضروریات پوری کرے اوراس کے معاش اوررہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اورحرام قسم کی شہوات سے اسے روک کررکھے ، اوراس سے ایسی اولاد پیداکرے جوکہ اس کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہووگرنہ وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اورضائع ہوجائے گی سوائے اس کے جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ۔
اورجوکچھ معاشرے کونقصان اورضرر ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اورغلط اورگندے ترین راستے پر چل نکلے گی ، جس سے وہ عورت زنا اورفحش کام میں پڑ جائے گی ۔اللہ تعالی اس سے بچا کررکھے اورمعاشرے میں فحاشی اورگندے ترین ایڈزاور اس جیسے دوسرے متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئی علاج نہیں ، اورپھر خاندان تباہ ہوں گے اورحرام کی اولاد بہت زیادہ پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے ؟
تواس طرح انہیں نہ توکوئی مہربانی اورنرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا ، اور نہ ہی کوئی ایسی عقل ملے گی جوان کی درست تربیت کرسکے اورجب وہ اپنی زندگی کا آغاز کروگے اوراپنی حقیقت حال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں توان کے سلوک پر برا اثر پڑے گا اوروہ الٹ جائیں اورپھر انحراف اورضائع ہونا شروع ہوجائیں گے ۔
بلکہ وہ اپنے معاشرے پر وبال بن جائیں گے اوراسے سزا دیں گے ، اورکسے معلوم ہوسکتا کہ وہ اپنے معاشرے کی تباہی کے لیے کدال بن کراسے تباہ کرکے رکھ دیں ، اورمنحرف قسم کے گروہوں کے لیڈر بن جائیں ، جیسا کہ آج دنیا کے اکثرممالک کی حالت بن چکی ہے ۔
(۳)…مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جوکہ ہوسکتا ہے ان کی زندگی ہی ختم کردے ، اس لیے کہ وہ بہت زیادہ محنت ومشقت کے کام کرتے ہیں ، کہیں تووہ لڑائیوں میں لشکر میں فوجی ہیں ، تومردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زیادہ ہے ، جوکہ عورتوں میں بلاشادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث اورسبب ہے ، اوراس کا صرف ایک ہی حل تعدد ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں ۔
(۴)… مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جن کی شہوت قوی ہوتی ہے اورانہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ، تواگر ایک سے زیادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اوراس سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تووہ بہت ہی زیادہ مشقت میں پڑ جائے گا ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شہوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے ۔
آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کوہرماہ حیض بھی آتا ہے اورجب ولادت ہوتی ہے توپھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حیض اورنفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے ، اورپھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے ، تو اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا ۔
(۵)…یہ تعدد صرف دین اسلامی میں ہی مباح نہیں کیا گیا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا ، اوربعض انبیاء کرام علیہم السلام متعددنکاح کئے ہوئے تھے ، دیکھیں اللہ تعالی کے نبی سلیمان علیہ السلام ہیں جن کی نوے بیویاں تھیں اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے زمانہ مبارک میں کئی ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اوربعض کی پانچ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کورکھیں اورباقی کوطلاق دے دیں ۔
(۶)… ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے ، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے اورخاوند کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے جوکہ اس کے لیے مباح ہے تواس کے لیے اس کے پاس اورکوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسری شادی کرے ۔
تواس لیے عدل و انصاف اوربیوی کی بھلائی یہی ہے کہ وہ بیوی بن کر ہی رہے اوراپنے خاوند کودوسری شادی کرنے کی اجازت دے دے ۔
(۷)…اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوجس کا کوئی کفالت کرنے والا نہ ہو اوروہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہو اوریہ شخص خیال کرتا ہوکہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کیساتھ گھر میں رکھے تا کہ اس کے لیے عفت وانفاق دونوں جمع کردے جوکہ اسے اکیلا چھوڑنے اوراس پر خرچ کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔
(۸)…کچھ مشروع مصلحتیں جو تعدد کی دعوت دیتی ہیں :
مثلا دوخاندانوں کے مابین روابط کی توثیق ، یا پھر کسی جماعت اورکچھ افراد کے رئیس اوران کے مابین روابط کی توثیق ، اوروہ یہ دیکھے کہ یہ غرض شادی سے پوری ہوسکتی ہے اگرچہ اس پرتعدد ہی مرتب ہو یعنی اسے ایک سے زیادہ شادیاں کرنی پڑیں ۔

عورت کیلئے صرف ایک خاوند کیوں؟

اس امر پر صرف مسلمانانِ عالم ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام مہذب اَقوام متفق ہیںاور ساری تاریخ میں متفق رہی ہیںکہ عورت کا خاوند ایک ہونا چاہئے۔ البتہ جاہل اور بے راہرو قوموں کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ آج کل کچھ شیطانی فکر رکھنے والے لوگ اس بات پر بھی معترض ہیں کہ مرد کو اگر چار عورتوں کی اجازت ہے تو عورت کو چار مردوں کی اجازت کیوں نہیں؟ اس کیوں کا جواب محققین نے چند پہلوئوں سے دیا ہے :

اشتباہِ نسل

الشیخ فرید الدین عطاررحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یہی مذکورہ سوال ایک دفعہ حضرت سیدناامام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کیا گیا۔ سوال کرنے والی عورتیں تھیں۔ آپ سوال سن کر اُلجھن میں پڑ گئے اور کہا کہ اس کا جواب کسی اور وقت دوں گا اور اس اُلجھن میں گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ آپ کی صاحبزادی حنیفہ نے اُلجھن کی وجہ دریافت کی تو آپ نے اپنی اُلجھن یعنی عورتوں کا سوال پیش کردیا۔ یہ سن کر صاحبزادی نے عرض کی کہ اگر آپ اپنے نام کے ساتھ میرے نام کو بھی شہرت دینے کا وعدہ کریں تو میں عورتوں کو اس کا جواب دے سکتی ہوں۔ جب آپ نے وعدہ کر لیا تو صاحبزادی نے کہا کہ عورتوں کو میرے پاس بھجوا دیجئے۔ چنانچہ جب عورتیں آگئیں تو صاحبزادی نے ایک ایک پیالی ہر عورت کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ اپنی اپنی پیالی میں تم سب تھوڑا تھوڑا اپنا دودھ ڈال دو جب انہوں نے ایسا کیا تو ایک بڑا پیالہ ان کو دے کر کہا کہ اب سب پیالیوں کا دودھ اس میں ڈال دو اور جب عورتوں نے یہ عمل بھی کردیا تو کہا کہ اب تم سب اس پیالے سے اپنا اپنا دودھ نکال لو۔تو عورتوں نے کہا کہ یہ تو ناممکن ہے۔ تب صاحبزادی نے کہا کہ جب کئی شوہروں کی شرکت تمہاری اَولاد میں ہوگی تو تم یہ کیونکر بتلاسکو گی کہ یہ اولاد کس شوہر کی ہے؟ اس جواب سے وہ عورتیں ششدر رہ گئیں اور امام صاحب نے اسی دن سے ابوحنیفہ کی کنیت اختیار کرلی…الخ(تذکرۃ الاولیاء لشیخ فریدالدین عطار:۱۲۳)

اگرچہ یہ واقعہ کئی پہلوئوں سے تنقیدی مطالعے کا محتاج ہے۔علماء کرام بڑی شدو مد سے اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں کہ امام موصوف کی اولاد میں سے کسی بیٹی کا نام حنیفہ نہ تھا اور نہ ہی کنیت کا باعث کوئی بیٹی تھی۔ اسی طرح یہ واقعہ مشکوک ہے۔ مگر جس فلسفے اور دینی امر کی حکمت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ بالکل درست ہے کہ اگر عورت کو ایک سے زیادہ خاوندوں کی اجازت ہو تو نسب نامے خلط ملط ہوجائیں گے۔

فسادِ عالم:مرد عورت کے معاملے میں رقیب برداشت نہیں کرتا۔ شروع تاریخ سے ہابیل وقابیل کے قصے سے لے کر آج تک کتنی مثالیں موجود ہیں۔ کتنے قتل صرف اسی رقابت و غیرت کی بنا پر ہوئے۔ اور کتنے گھر صرف ایک عورت کے مختلف چاہنے والوں کی باہمی لڑائی سے اُجڑے ہیں۔ اگر اس احمقانہ خیال کو مان لیا جائے کہ عورتوں کو بھی کثرتِ بعول کی اجازت ہونی چاہئے تو پھر دنیا کے نقشے پر فساد ہی فساد ہوگا، قتل و غارت ہوگی اور عشق کی خاطر خون بہے گا۔ کیا اس قسم کی باتیں کرنے والے دنیا کو تباہ کرنے کا حیلہ نہیں کئے بیٹھے ہیں؟

حافظ ابن قیم لکھتے ہیں
وَلَوأُبِیحَ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تَکُونَ عِنْدَ زَوْجَیْنِ فَأَکْثَرَ لَفَسَدَ الْعَالَمُ،وَضَاعَتْ الْأَنْسَابُ،وَقَتَلَ الْأَزْوَاجُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، وَعَظُمَتْ الْبَلِیَّۃُ،وَاشْتَدَّتْ الْفِتْنَۃُ،وَقَامَتْ سُوقُ الْحَرْبِ عَلَی سَاقٍ۔
ترجمہ:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ المتوفی : ۷۵۱ھ) لکھتے ہیں کہ اور اگر عورت کو جائز ہو کہ وہ دو خاوند کرے یا اس سے زیادہ تو دنیا میں فساد برپا ہوجائے اور نسب نامے ضائع ہوجائیں اور خاوند ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیں اور بہت بڑی آزمائش کھڑی ہوجائے اور فتنہ زبردست ہو اور لڑائی مار کٹائی کا بازار پوری تندہی سے گرم ہوجائے۔
(إعلام الموقعین :محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ (۲:۶۵)
الحمد للہ، عورت کو ایک شوہر تک محدود رکھنا اللہ تعالی کی بڑی رحمت اور کرم نوازی ہے۔ یہ تو دنیا پر اللہ تعالی کی خاص رحمت پھیلانے والااُصول ہے۔ جس سے عالم کی بقا ہے او رحق بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کا ہر حکم رحمتوں بھرا ہے اور انسانی مفاد میں ہے۔ بندے کو خواہ مخواہ الجھن میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہماری دانائی اس حکیم کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

اہل مغرب کیاچاہتے ہیں؟

اہل مغرب، یورپ اور ان جیسی تہذیب رکھنے والے ممالک جنسی اِباحیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہاں صنفی خواہش اور تلذذ کو بھڑکانے والے محرکات و عوامل کو دن بدن پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اپنے شوہر یا بیوی کے علاوہ دیگر خواتین و حضرات سے بھی ناجائز تعلق رکھنا نہ صرف عام ہے بلکہ اب کوئی معیوب امر بھی نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ بیوی کی موجودگی میں کوئی دوسری خاتون سے نکاح کرے تو اسے بہت معیوب سمجھتے ہیں۔قانونی تعدد اَزواج کو برا خیال کیا جاتا ہے جبکہ غیر قانونی تعددِ ازواج کا عام رواج ہے۔

ان ممالک کے لوگ بچوں کو پالنا مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ بچے ان کی زندگی کی رنگینیاں غارت کردیتے ہیں۔ لہٰذا ایک تو ان ممالک میں قلت ِاولاد اور آبادی میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ دوسرا اگر بچے ہیں بھی تو ان میں حرامی بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مزید برآں ناجائز بچوں اور کنواری مائوں کی تعداد میں مسلسل ہو شربا اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجۃً وہاں نسب نامے گم ہو رہے ہیں، خاندان سکڑ چکے ہیں۔ جنسی درندے تمام اخلاقیات کو پامال کرکے تہذیب و تمدن کا بیڑاغرق کر رہے ہیں۔ ناجائز بچے جن کا کوئی وارث اور ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا، وہ معاشرے میں مزید آزادی سے گند ڈال رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے!

ضرورت تو یہ تھی کہ سنجیدہ لوگ اس گندگی کی صفائی کا کچھ بندوبست کرتے، لیکن اہل مغرب نے مزید ڈھٹائی کامظاہر کرتے ہوئے اپنے اس معاشرتی عکس کو روشن خیالی، جدت پسندی اور ترقی کا نام دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ باقی دنیا بھی ان ہی کی طرح ہوجائے۔ تاکہ اس دنیا کے حمام میں سب ہی ننگے اور نکٹے ہوں اور کوئی بھی ان کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہ کرسکے۔ خصوصاً اسلامی تہذیب اور مسلمان تو انہیں بہت ہی کھٹکتے ہیں کیونکہ اسلام حیا کا سبق سکھاتا ہے۔ غیر محرم سے تعلقات کو زنا اور گناہِ کبیرہ شمار کرتا ہے۔ نیز مسلمان بچوں سے نفرت بھی نہیں کرتے اور اسلام اس شخص کو جسے تسکین کے لئے ایک بیوی کافی نہ ہو، دوسری، تیسری اور چوتھی بیوی کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ تاکہ معاشرے میں ناجائز تعلقات پیدا کرنے کا جواز ہی باقی نہ رہے۔ بلکہ اگر کبھی جنگ وغیرہ کے نتیجے میں مردوں کی تعداد کم ہوجائے تو یتیموں اور بیوائوں کو اس اجازت کے ذریعے معقول سہارا مل سکے یا اس کے علاوہ بھی ملک و قوم کی جب بھی خدمت کے لئے، اس جواز کی ضرورت ہو، اسے استعمال میں لایا جائے۔
تعددِ ازواج کی اجازت کے اسلامی اصول سے دنیا کے کافر بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ اب وحدتِ زوج اور قلت ِاولاد کا اصول اپنا چکے ہیں۔ جبکہ تعددِ ازواج سے مسلمان کثرت سے اور تیزی سے اپنی نسل کو بڑھا سکیں گے۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر اہل اسلام کی آبادی بڑھنے کی یہی صورتحال رہی یا اس سے بھی تیز ہوگئی تو کہیں ہم اقلیت اور مسلمان دنیا کی اکثریت نہ بن جائیں۔ بغیر کسی جنگ و انقلاب کے مسلمان دنیا پرچھا جائیں گے۔

ایک سنی عالم دین نے کہاتھاکہ اگر صرف ہندوستان کے مسلمان تعددِ ازواج کے اصول کو اپنا لیں تو بغیر کسی خاص محنت کے صرف پچاس برس میں وہ ہندوستان کی اکثریت میں تبدیل ہوجائیں گے۔اور یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ جو مسلمان زنا سے بچیں اور کردار و ایمان کی حفاظت کریں، دنیا کے کافروں کو خطرہ بھی ان ہی سے ہے۔

دنیا کے کافر لوگ چاہتے ہیں کہ ان خطرات کا سدباب ہو۔ اہل اسلام میں بھی فحاشی پھیلے، ان کو بچے کم پیدا کرنے کی ترغیب دو۔ اسی شرط کے ساتھ امداد دو۔ اسی ضمن میں وہ تعدد ازواج کے قانون کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ کھلم کھلا اس کے خلاف بولتے ہیں۔ منکرین حدیث اور نام نہاد حقوقِ انسانی کے ڈھنڈورچی اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے ناپاک جسارت کرتے ہوئے اسے اسلام سے خارج کرنے کی مذموم کوشش کی… حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ چار بیویوں کی اجازت اٹل ہے۔ جب سے انسان دنیا پر آئے ہیں، آج تک نسل انسانی اس پر عمل پیرا ہے۔ مذاہب ِعالم کی مقدس کتب اپنے انبیاء کرام علیہم السلام اور مقدس ہستیوں کے بارے میں ناقل ہیں کہ وہ اس پر کاربند رہے۔ خودحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس پر عمل کیا۔ قرآن و حدیث نے اہل ایمان کو چار بیویوں کی اجازت دی ہے۔ اور تمام اُمت کا آج تک اس جواز پر اجماع رہا ہے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اپنے وصال شریف تک اس پر عامل رہے۔

معارف ومسائل

(۱) بہرحال اہل اسلام کو نص قرآن کریم اوراحادیث اوراجماع امت کی روسے بیک وقت چارخواتین کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے ۔ البتہ دوسرے مذاہب میں اس کی گنجائش نہیں ہے ، لیکن اس کے بدلے ان کے ہاں یہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ ہے کہ بہت سی دوست لڑکیاں ( گرل فرینڈ) رکھ لے ، یورپی اقوام میں جس مرد کی جتنی زیادہ لڑکیاں دوست ہوں یاجس عورت کے جتنے زیادہ یاردوست ہوں وہ معاشرے میں معززسمجھاجاتاہے اوریہ چیز ان کے لئے قابل فخرہے ۔ زناکاری ان کے نزدیک کچھ عیب کی بات نہیں ہے ، البتہ زنابالجبرجرم ہے ، جبکہ خوشی اوررغبت کے ساتھ زناجائزاورمستحسن ہے ۔ حتی کہ ہندئووں میں یہ بھی رواج ہے کہ بھانجی اوربھتیجی کے ساتھ بھی نکاح جائز ہے ، اگرچھے بھائیوں میں سے کسی ایک کی بیوی ہوتو سارے بھائیوں کے لئے قابل استعمال ہوتی ہے ۔ اسی بنیادپرایک عورت نے اپنی ساس سے بڑے شریفانہ انداز میں دریافت کیاکہ اماں جی !یہ بتائوکہ تمھارے سات بیٹوں میں سے میراشوہرکون ہے ؟ تواماں جی نے کہا: بیٹی !تم کو کیاہوا، تم توجوان ہو، میرے بال سفیدہوگئے ، ابھی تک مجھے اپنے شوہرکاپتہ نہیں ہے کہ میراشوہرکون ہے ؟۔ ایک یورپی مورخ نے لکھاہے کہ ہماری یورپی آبادی اس وقت پینتالیس کروڑ کے قریب ہے ، جبکہ مجھے یقین ہے کہ اس پوری آبادی میں کوئی پینتالیس لوگ بھی حلالی نہیں ہیں ، سب کے سب حرامزادے ہیں۔
یورپ کاایک اورسیاح دانشورمحقق سروے کرنے والاببانگ دہل کہتاہے اوریہ اقرارکرتاہے کہ مسلما ن ممالک میں عورت کاجومقام اورشرف اورعصمت وعفت قائم ہے یورپ کی عورت کو اس کاعشرعشیربھی حاصل نہیں ہے ، یورپ کی عورت مردوں کی ہوس کانشانہ بنی ہوئی ہے ۔ جبکہ مسلم ممالک کی عورت کو خاتون خانہ کادرجہ حاصل ہے ۔ تواسلامی تعلیمات پراعتراض کرنے والے اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کہ جنہوں نے عورت کو گھرسے نکال کربازاروں ، گلیوں اوردفتروں اورہوس خانوں میں لاکراس کابیڑہ غرق کردیا،آج وہ خود حواس باختہ اورپریشان ہیں ۔اب بات ان کے قابوسے نکل چکی ہے ۔

Leave a Reply