ایک مسجد کی زائد اشیاء دوسری مسجد میں استعمال کرنا کیسا ہے ؟

ایک مسجد کی زائد اشیاء دوسری مسجد میں استعمال کرنا کیسا ہے ؟

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

اگر مسجد کی زائد اشیاء اسی مسجد میں بعد میں استعمال ہو سکتیں ہیں اور ان کو سنبھال کر رکھنے میں ان کے ضائع ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو پھر کسی دوسری مسجد کے لئے نہیں دے سکتے اور اگر ان اشیاء کی اب مسجد کو بالکل ضرورت نہ رہی ہو یا فی الحال ضرورت نہ ہو اور بعد میں کام آ سکتیں ہوں لیکن سنبھال کر رکھنے صورت میں ان کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر ان اشیاء کی دو صورتیں بنتی ہیں :
1- اگر کسی نے اپنی ذاتی مال سے وہ اشیاء خرید کر دی تھیں، اور دینے والے معلوم بھی ہیں تو انہیں واپس کردیں گے، اگر وہ نہ رہے ہوں تو ان کے ورثاء کو واپس دیدی جائیں گی اور اگر دینے والے اور ان کے ورثاء معلوم نہ ہوں تو اب وہ کسی شرعی فقیر کو دیدی جائیں گی یا قاضی کی اجازت سے انہیں بیچ کر دوسری مسجد یا مدرسہ پر لگا دیا جائے گا یا بغیر بیچے مسجد ،مدرسے کو دے دی جائیں گی۔
2- اگر وہ اشیاء مسجد کے چندہ سے خریدی گئی تھیں تو انہیں بیچ کر ان کی رقم مسجد پر خرچ کردی جائے گی۔
چنانچہ امام زین الدین بن نجیم رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"لو اشتریٰ حشیشا، أو قندیلا، للمسجد فوقع الاستغناء عنہ، کان ذلک لہ إن کان حیاً”
اگر اس نے مسجد کے لئے گھاس یا قندیل خریدا پھر اس بے نیازی واقع ہوئی تو اسی کے لئے ہوگا اگر وہ زندہ ہوا تو۔
(البحرالرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الوقف، فصل فی أحکام المسجد، جلد 5 صفحہ 262 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
امام عبدالرحمن بن محمد رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"سئل عن شمس الأئمۃ الحلوانی أنہ سئل عن مسجد أو حوض خرب و لایحتاج إلیہ لتفرق الناس عنہ : ھل للقاضی أن یصرف أوقافہ إلیٰ مسجد آخر أوحوض آخر ؟ فقال نعم”

یعنی شمس الائمہ حلوانی رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسجد یا حوض کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو ویران ہو گئے ہوں اور لوگوں کے اس سے متفرق ہونے کی وجہ سے اس کی طرف محتاجی نہ رہی ہو تو کیا قاضی کے لئے جائز ہے کہ اس کے اوقاف کو دوسری مسجد یا دوسرے حوض پر استعمال کرلے تو فرمایا : ہاں۔
(مجمع الانہر، جلد 2 صفحہ 596 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"آلات یعنی مسجد کا اسباب جیسے بوریا، مصلی، فرش، قندیل، وہ گھاس کہ گرمی کے لئے جاڑوں میں بچھائی جاتی ہے وغیر ذلک، اگر سالم و قابلِ انتفاع ہیں اور مسجد کو ان کی طرف حاجت ہے تو ان کے بیچنے کی اجازت نہیں، اور اگر خراب و بیکار ہوگئی یا معاذﷲ بوجہ ویرانی مسجد ان کی حاجت نہ رہی، تو اگر مال مسجد سے ہیں تو متولی، اور متولی نہ ہو تو اہل محلہ متدین امین باذنِ قاضی بیچ سکتے ہیں، اور اگر کسی شخص نے اپنے مال سے مسجد کو دئے تھے تو مذہبِ مُفْتیٰ بِہ پر اس کی ملک کی طرف عود کرے گی جو وہ چاہے کرے، وہ نہ رہا ہو اور اس کے وارث وہ بھی نہ رہے ہوں یا پتا نہ ہو تو ان کا حکم مثلِ لقطہ ہے، کسی فقیر کو دے دیں، خواہ باذنِ قاضی کسی مسجد میں صرف کردیں۔”
(فتاوی رضویہ جلد 16 صفحہ 265 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply