اگر شوہر نامرد ہے اورحق زوجیت ادا کرنے سےقاصر ہے توکیا اس پر طلاق دینا واجب ہے؟

 اگر شوہر نامرد ہے اورحق زوجیت ادا کرنے سےقاصر ہے توکیا اس پر طلاق دینا واجب ہے؟

حضور امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اللہ کریم بطفیل حبیب ﷺ آپ کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔ بعدازاں عرض گذار ہوں کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے عنین یعنی نامرد ہونے کے سبب اس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو کیا شوہر کو طلاق دینا ضروری ہوگا یا نہیں جبکہ شوہر شادی کے بعد سے اب تک تقریباً 9 ماہ کے عرصہ میں ایک بار بھی جماع پر قادر نہیں ہو سکا ہےنیز بعد طلاق شوہر پر مہر واجب ہوگا یا نہیں برائے کرم جلد جواب سے نواز دیجئے گا۔ اللہ پاک آپ کو اس کا بدلہ عطا فرمائے آمین
المستفتی:نبیہ حسن مصباحی رچھا اسٹیشن بہیڑی ضلع بریلی شریف_
وعليــــــكم الســـــلام ورحمة اللّٰه وبرکاتہ

الجـــــوابـــــــــــــــ بعون الملک الوہاب

اگر شوہر واقعی نامرد ہے اور حق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہے تو اس پر طلاق دینا واجب ہے اگر یوں ہی رکھے گا تو گنہگار ہوگا ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
” فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” یعنی بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ” اھ
( پ:2/ع:13/آیت:229)*

اگر شوہر طلاق نہ دے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ دباؤ ڈال کر اس سے طلاق دلوائیں اگر اس میں کوتاہی کریں گے تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور اگر شوہر اس طرح بھی طلاق نہ دے تو عورت قاضی کے پاس دعویٰ کرے قاضی شوہر سے دریافت کرے اگر شوہر نامرد ہونے کا اقرار کرے تو علاج کے لئے ایک سال کی مہلت دے دعویٰ کے پہلے کا زمانہ حساب میں نہ آئےگا بلکہ دعویٰ کے بعد ایک سال کی مدت درکار ہے تو اگر سال کے اندر شوہر نے ہمبستری کرلی تو عورت کا دعویٰ ساقط ہوجائے گا اور اگر ہمبستری نہ کی اور عورت جدائی کی خواستگار ہو تو قاضی شوہر کو طلاق دینے کو کہے اگر وہ طلاق دیدے فبہا ورنہ قاضی تفریق کردے ۔

جیساکہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ
” اذا رفعت الامرأۃ زوجھا الی القاضی و ادعت انہ عنین و طلبت الفرقۃ فان القاضی یسئلہ ھل وصل الیھا أو لم یصل فان أقر انہ لم یصل اجلہ سنۃ ” اھ
اور اسی میں ہے
” ابتداء التاجیل من وقت المخامصۃ کذا فی المحیط ” اھ
پھر اسی میں ہے کہ
” لا یکون ھذا التاجیل الا عند قاضی مصر أو مدینۃ فان أجلتہ المرأۃ أو اجلہ غیر القاضی لا یعتبر ذالک کذا فی فتاوی قاضی خان ” اھ
( ج:1/ص:522/523/ الباب الثانی عشر فی العنین/ بیروت)

اور جہاں قاضی شرع نہیں جیسے آج کل ہندوستان تو وہاں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم دین جو مرجع فتاویٰ ہو قاضی شرع ہے ھکذا فی الحدیقۃ الندیہ ۔
اور یہ بات یاد رہے کہ عورت مذکور شرعی طور پر چھٹکارہ حاصل کئے بغیر دوسرا نکاح ہرگز نہیں کرسکتی ۔

جہاں تک مہر کا حکم ہے تو واضح رہے کہ مہر بیوی کا حق ہے جو شوہر پر نکاح کے وقت واجب ہوجاتا ہے نکاح کرنے کے بعد اگر شوہر بیوی کے ساتھ جماع کرے یا اس سے صرف خلوت صحیحہ کرے یعنی ایسی ملاقات کرے جس میں جماع کرنے سے شرعی ، حسی اور طبعی کوئی مانع موجود نہ ہو تو اسکی وجہ سے شوہر پر پورے مہر کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے اگرچہ شوہر اس کے بعد طلاق دیدے یا دونوں کے مابین تفریق ہوجائے ۔

لہذا مذکورہ صورت میں شوہر کے ذمے پورے مہر کی ادائیگی لازم ہے اگرچہ ان دونوں کے درمیان تفریق واقع ہوجائے کیونکہ یہاں پر خلوت صحیحہ پائے جانے کی وجہ سے شوہر کے ذمے پورے مہر کی ادائیگی لازم ہے ۔

جیساکہ تنویر الابصار میں ہے
” والخلوۃ بلا مانع حسی و طبعی و شرعی ولو مجبوبا أو عنینا أو خصیا فی ثبوت النسب المجبوب و تأکد المھر ” اھ
( ج:4/ص:249/255/ کتاب النکاح/ باب المھر/ دار عالم الکتب)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبـــــــــہ :حضرت مفتی اسرار احمد نوری بریلوی صاحب قبلہ

Leave a Reply