آسام میں سیلاب مزمل حسین علیمی آسامی
ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام( AAA)
ملک کی سرحدی ریاست یعنی چائے، خام تیل، کوئلہ، دلکش پہاڑیوں ، قدرتی نظاروں، سرسبز وشاداب وادیوں، بل کھاتی ندیوں اور سکون کی سرزمین آسام اس وقت سیلاب کی آفتوں سے دوچار ہے۔
ریاست کے 29 اضلاع میں 21 لاکھ سے زائد لوگ متاثر اور 109 لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ وہیں ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، دیہاتی علاقے زیرآب ہوگئے، معیشت و تجارت تباہ ہوچکی ہے ، زراعت و صنعت اور جنگلات و جنگلی حیوانات کو بھی زک پہونچا ہے۔ مجموعی اعتبار سے صورتحال نہایت ہی خوفناک ہے۔
کیا آسام میں سیلاب اک نیا مسئلہ ہے؟
ہر سال آنے والا یہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے۔ جس طرح مستقل ہلاکت خیز زلزلہ جاپان کا خاصہ بن گیا ہے، اسی طرح آسام میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو بھی نیا سانحہ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن زلزلہ اور سیلاب کی ہلاکتوں میں بڑا فرق ہے۔ہمیں سیلاب آنے کی پیشین گوئی ملتی ہے، پیشگی آثار کے طور پر شدید بارش ہوتی ہے، جس سے اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ سیلاب کی آمد ہونے والی ہے۔ لیکن زلزلہ کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ زلزلہ کب آئے گا؟نیز زلزلہ کا کویٔ وقت اور موسم متعین نہیں ہے اچانک آجاتا ہے جب کہ سیلاب کی آمد عموماً موسم باراں ہی میں ممکن یا متیقن ہے-
آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ”شرت چندر سنگھ“ نے آسام میں سیلاب کے بارے میں ایک اہم تبصرہ کیا تھا، انھوں نے کہا تھا کہ ”سیلاب آسام کے لیے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔آسام کے لوگوں کو سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ یہ ہر سال ایک باقاعدہ واقعہ ہے۔“ تو سب سے اہم چیز پہلے سے تیاری اور منصوبہ بندی ہے۔ لیکن ہماری تیاریاں اور ترقیاتی ماڈلز کہاں ہیں؟
وجہِ سیلاب
15 اگست 1950 کو آسام میں ایک خوفناک زلزلہ آیا تھا،جسے آسام زلزلہ کہتے ہیں۔ یہ روۓ زمین پر اب تک کا سب سے طاقتور اور بڑا زلزلہ ہے۔ زلزلے کے بعد سے آسام میں ہر سال بھاری سیلاب آنے لگا۔
زلزلے نے مختلف خطوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور چٹانیں گرا دیں۔ زلزلے کی وجہ سے دریاؤں کی تہہ ختم ہو گئی ۔ تب سے دریاؤں نے اپنی وسعت سے زیادہ پانی کشید کیا، جس کی وجہ سے پانی کی تھوڑی مقدار جمع ہونے پر کنارے بہہ جاتے ہیں،اور ہر سال سیکڑوں نئے علاقے زیرآب آجاتے ہیں۔ نتائج میں ہزاروں لوگ بے گھر اور کافی نقصانات سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ اہل آسام کے مستقبل اور ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔
روک-تھام
یہ سیلابی آفت ہر سال آسام کے ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کرتی ہے۔ صوبائی حکومت فوری و قلیل مدتی پالیسیاں اپناتی ہے، پانی کو روکنے اور علاقوں کی حفاظت کے لیے دریاؤں کے کنارے متھباری ( ڈیم – Dam) بناتی ہے۔ لیکن جب سیلاب آتا ہے تو بند کنارے سے اچانک ٹوٹ جاتے ہیں۔
سیلاب کو روکنے کیلئے دریائے برہم پترا، سوونسیری اور باراک پر قابو پانا ضروری ہے۔ تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ رقم اور تجربہ کار تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہوگی۔ جوکہ صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہے۔
مرکزی حکومت سے اپیل
حکومتیں بنتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ دہلی، گجرات و ملک کے مختلف گوشوں سے سیاسی رہنمااپنے مفادات کے لیے آسام آتے رہتے ہیں اور سیلاب کو روکنے کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتے رہتے ہیں،لیکن آسام کا مسئلہ، مسئلہ ہی رہ گیا، ابھی تک حل نہ ہوسکا۔
آسام نے ملک کو انمول خزانے دیے ہیں، جوکہ تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔ جس میں اس وقت چاۓ، خام تیل اور کوئلہ قابل ذکر ہے۔ چنانچہ آسام کی صالحیت اور سالمیت ملکی ترقیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لہذا ہم مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آسام کی سیلابی آفت کو قومی مسئلہ قرار دے کر، آسام و اہل آسام کی بقا و ترقی کے لیے فکرمند ہو۔
آسام کے لوگ طویل عرصے سے مشکلات کے شکار ہیں، اور یہ صوبائی اورمرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنائے۔ حکومت سیلاب کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی مضبوط اور دیر پا لائحہ عمل تیار کرے، اور اس مسئلے کا درست اور مستقل حل تلاش کرے۔