آم کی فصل کے بور آتے ہی ایک غیر مسلم کے ہاتھ بیچ دینا کیسا ہے ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و ملت اس مسئلہ کے آم کی فصل کے بور آتے ہی ایک غیر مسلم کے ہاتھ بیچ دیں گی تو اس طرح بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟اور وہ پیسہ مسلمان کے لئے حلال ہے یا نہیں؟
بینوا توجروا ۔
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــ
بور آتے ہی آم کی فصل بیچنا جائز نہیں ۔ اور اگر آم کے پھل ظاہر ہو چکے ہیں مگر کام کے قابل نہیں ہیں تو ان کا بیچنا جائز ہے مگر اس شرط پر جائز نہیں ہےکہ جب تک پھل تیار نہ ہوں گے درخت پر رہیں گے ۔ ہاں اگر بغیر شرط کے خرید و فروخت ہو پھر بیچنے والا تیار ہونے تک پھلوں کو درخت پر رہنے دے تو حرج نہیں۔
بہار شریعت جلد ١١ صفحہ ٨٨ میں ہے ” پھل اس وقت بیچ ڈالے کہ ابھی نمایاں بھی نہیں ہوئے ہیں یہ بیع باطل ہے ۔ اور اگر ظاہر ہو چکے ہیں مگر قابل انتفاع نہیں ہیں تو یہ بیع صحیح ہے مگر مشتری پر فوراً توڑ لینا ضروری ہے اور اگر یہ شرط کرلی ہے کہ جب تک تیار نہیں ہوں گے درخت پر رہیں گے تو بیع فاسد ہے ۔ اور اگر بلا شرط خریدے ہیں مگر بائع نے بعد بیع اجازت دی ہے کہ تیار ہونے تک درخت پر رہنے دو تو اب کوئی حرج نہیں ۔ انتھی کلام صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ۔
اور فتاوی عالمگیری جلد سوم مطبوعہ مصر صفحہ ٩٧ میں ہے : بیع الثمار قبل الظھور لا یصح اتفاقاً فان یاعھا بعد ان تصیر منتفعابھا یصح وان باعھا قبل ان تصیر منتفعابھا بان لم تصلح لتناول بنی آدم وعلف الدواب فالصحیح انہ یصح وعلی المشتری قطعھا فی حال ھذا اذا باع مطلف اوبشرط القطع فان باع بشرط الترک فسد البیع اھ
اور اس قسم کی جائز بیع کو فسخ کر دینا متعاقدین پر واجب ہے اگر فسخ نہ کریں گے تو دونوں گنہگار ہوں گے ۔
در مختار مع ردالمحتار جلد چہارم صفحہ ١٢٥ میں ہے : یجب علی کل واحد منھما فسخہ قبل القبص اوبعده مادام المبیع بحالہ جوھرہ فی یدی المشتری اعداما للفساد ولانہ معصیتہ فیجب رفعھا بحر اھ ملخصا مگر ہندوستان کے کافر حربی ہیں جیسا کہ حضرت ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ان ھم الا حربی لا یعقلھا الا العالمون (تفسیرات احمدیہ صفحہ ٣٠٠)
اور کافر حربی کا مال عقد فاسد کے ذریعہ حاصل کرنا ممنوع نہیں۔ بہار شریعت جلد یازدہم صفحہ ١٥٣ میں ہے،، عقد فاسد کے ذریعہ کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر کافر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو،، اھ ۔
ردالمحتار جلد چہارم صفحہ ١٨٨ میں ہے لوباعھم درھما بدرھمین اوباعھم میتۃ بدراھم اوخذ مالا منھم بطرق القمار فذالک کلہ طیب لہ اھ ۔لہذا بور آتے ہیں آم کی فصل بیچ کر جو پیسہ یہاں کے کافر سے لیا گیا وہ مسلمان کے لیے حلال طیب ہیں البتہ مسلمان کے ہاتھ اس قسم کی بیع جائز نہیں ۔
ھذا ماظھرلی والعلم بالحق عنداللہ تعالیٰ ورسولہ
کتبــــــــــــــہ : مفتی جلال الدین احمد الامجدی