کیا ذات برادری کی جنگ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے چھیڑی ہے ؟ ایک الزام کا جواب

کیا ذات برادری کی جنگ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے چھیڑی ہے ؟ ایک الزام کا جواب

اعلی جضرت علیہ الرحمہ پر ایک بے بنیاد اتہام کا جواب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ ایک مسجد کے امام صاحب جو کہ سنی ہیں اور حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ بیعت بھی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ آج جو لوگوں کے اندر ذات یعنی (کاسٹ ) کی جو جنگ چھیڑی ہے کہ ہم خان ہے ہم انصاری ہے وہ شیخ ہے فلاں قریشی ہے تو ذات برادری کی جو جنگ ہے یہ امام احمد رضا خان نے چھیڑی ہے اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ امام صاحب پر کیا حکم نافذ ہوگا؟
سائل : محمد جمشید رضوی بہار

الجوابــــــــــــــــــــــــــ

سخت حیرت کا مقام ہے کہ اپنے آپ کو حضور تاج الشریعہ نور اللہ مرقدہ کا مرید بتانے والا ذات برادری کی جنگ چھیڑنے کا بے بنیاد اتہام شیخ الاسلام والمسلمین، مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی عظیم شخصیت پر لگانے کی جسارت کر رہا ہے۔اس کو اتنا سمجھنا چاہیے کہ اس بے بنیاد اتہام وبہتان سے اس کے پیر و مرشد حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو ناراضگی ہوگی۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے تو اسلامی افکار ونظریات سے متصادم ذات برادری کے نیچ اونچ کے بے بنیاد خیال کا زبردست رد کیا ہے وہ تو قوم کے بھنگی کو بھی مسجد میں نماز نہ پڑھنے دینے یا ان کے لیے الگ صف بندی کرنے کی سوچ رکھنے والوں کا دلائل وبراہین کی روشنی میں رد بلیغ کرتے ہیں۔فتاوی رضویہ شریف کا درج ذیل سوال اور جواب پڑھیے:

مسئلہ: "مسلمان حلال خور (یعنی: بھنگی) جوپنج وقتہ نماز پڑھتا ہو، اس طرح پر کہ اپنے پیشہ سے فارغ ہوکر غسل کرکے طاہر کپڑے پہن کر مسجد میں جائے، تو وہ شریک جماعت ہوسکتاہے یانہیں؟ اور اگرجماعت میں شریک ہو تو کیا پچھلی صف میں کھڑا ہو یا جہاں اس کو جگہ ملے یعنی اگلی صف میں بھی کھڑا ہوسکتا ہے؟ اور اس طرف بعد نمازِصبح وبعد نمازِجمعہ نمازی آپس میں مصافحہ کرتے ہیں۔ توکیا وہ بھی مسلمانوں سے مصافحہ اور مسجد کے لوٹوں سے وضو کرسکتاہے؟ اور جو حلال خور اپنا پیشہ نہ کرتا ہو صرف جاروب کشی بازار وغیرہ کی کرتا ہو اس کے واسطے شرع شریف کا کیاحکم ہے؟ ہردوصورتوں میں جو حکم شرع شریف کا ہو اس سے اطلاع بخشئے۔ بینواتوجروا!
الجواب: بیشک شریکِ جماعت ہوسکتاہے۔ اور بیشک سب سے مل کر کھڑا ہوگا۔ اور بے شک صف اول یا ثانی میں جہاں جگہ پائے گا قیام کرے گا۔ کوئی شخص بلاوجہِ شرعی کسی کو مسجد میں آنے یاجماعت میں ملنے یا پہلی صف میں شامل ہونے سے ہرگز نہیں روک سکتا، ﷲ عزوجل فرماتاہے: "ان المسٰجد للہ”۔ بے شک مسجدیں خاص اللہ کے لیے ہیں ۔

رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: "العباد عباد ﷲ”۔بندے سب اللہ کے بندے ہیں۔
جب بندے سب ﷲ کے، مسجدیں سب ﷲ کی، تو پھر کوئی کسی بندے کو مسجد کی کسی جگہ سے بے حکمِ الٰہی کیوں کر روک سکتاہے؟ ﷲ عزوجل نے کہ ارشاد فرمایا: "من اظلم ممن منع مسٰجد ﷲ ان یذکر فیھا اسمہ” اس سے زیادہ ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں خدا کا نا لینے سے ۔
اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ بادشاہ حقیقی عزجلالہ کایہ عام دربار، خاں صاحب، شیخ صاحب، مغل صاحب یا تجار زمیندار معافی دار ہی کے لئے ہے۔ کم قوم یاذلیل پیشہ والے نہ آنے پائیں، علماء جوترتیبِ صفوف لکھتے ہیں اس میں کہیں قوم یا پیشہ کی بھی خصوصیت ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ مطلقاً فرماتے ہیں: "یصف الرجال، ثم الصبیان، ثم الخناثی، ثم النساء”یعنی: صف باندھیں مرد، پھر لڑکے، پھر خنثی پھر عورتیں۔

بیشک زبّال یعنی پاخانہ کمانے والا یا کناس یعنی جاروب کش مسلمان، پاک بدن پاک لباس جبکہ مرد بالغ ہو تو وہ اگلی صف میں کھڑا ہوجائے گا اور خان صاحب اور شیخ صاحب مغل صاحب کے لڑکے پچھلی صف میں۔ جو اس کا خلاف کرے گا حکم شرع کا عکس کرے گا ۔ شخص مذکور جس صف میں کھڑا ہو اگر کوئی صاحب اسے ذلیل سمجھ کر اس سے بچ کر کھڑے ہوں گے کہ بیچ میں فاصلہ رہے وہ گنہگار ہوں گے، اور اس وعیدِ شدید کے مستحق کہ حضور اقدس سیدعالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: "من قطع صفا قطعہ ﷲ”۔ جو کسی صف کو قطع کرے اللہ اسے کاٹ دے گا
اور جو متواضع مسلمان صادق الایمان اپنے رب اکرم ونبی اعظم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاحکم بجا لانے کو اس سے شانہ بشانہ خوب مل کر کھڑا ہوگا ﷲ عزوجل اس کا رتبہ بلند کرے گا اور وہ اس وعدہ جمیلہ کا مستحق ہوگا کہ حضور انور سید المرسلین صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:من وصل صفّا وصلہ ﷲ۔جو کسی صف کو وصل کرے گا اللہ اسے وصل فرمائے گا

دوسری جگہ ہمارے نبی کریم علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں: "الناس بنواٰدم، واٰدم من تراب”۔ لوگ سب آدم کے بیٹے ہیں اور آدم مٹی سے۔ رواہ ابوداؤد والترمذی وحسنہ والبیھقی بسند حسن عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

دوسری حدیث میں ہے ، حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:یا ایھا الناس ان ربکم واحد، وان اباکم واحد، ألا لا فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولا لاحمر علی اسود، ولا لاسود علی احمر الا بالتقوی۔ ان اکرمکم عند ﷲ اتقٰکم

اے لوگو! بیشک تم سب کا رب ایک اور بیشک تم سب کا باپ ایک، سن لو کچھ بزرگی نہیں عربی کو عجمی پر، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر مگر پرہیزگاری سے، بیشک تم میں بڑے رتبے والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔
۔رواہ البیہقی عن جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ تعالٰی عنھما۔

ہاں! اس میں شک نہیں کہ زبّالی شرعاً مکروہ پیشہ ہے،جبکہ ضرورت اس پر باعث نہ ہو، مثلاً جہاں نہ کافر بھنگی پائے جاتے ہوں،جو اس پیشہ کے واقعی قابل ہیں، نہ وہاں زمین مثلِ زمینِ عرب ہو کہ رطوبت جذب کرلے ایسی جگہ اگر بعض مسلمین، مسلمانوں پر سے دفعِ اذیت وتنظیفِ بیوت وحفظِ صحت کی نیت سے اسے اختیار کریں تو مجبوری ہے ۔ اور جہاں ایسا نہ ہو تو بیشک کراہت ہے ؛لتعاطی النجاسات من دون ضرورۃ۔ وہ بھی ہرگز حدِّ فسق تک منتہی نہیں،فتح القدیر و فتاوٰی عالمگیری میں ہے؛”اماشہادۃ اھل الصناعات الدنیئۃ کالکساح والزبال والحائک والحجام فالاصح انھا تقبل؛ لانھا قد تولاھا قوم صالحون، فما لم یعلم القادح لا یبنی علی ظاھر الصناعۃ۔”

مگر ان قوم دارحضرات کا اس سے تنفر ہرگز اس بنا پر نہیں کہ یہ ایک امر مکروہ کا مرتکب ہے۔ وہ تنفرکرنے والے حضرات خود صدہا امور محرمات وگناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں، تو اگر اس وجہ سے نفرت ہو تو وہ زیادہ لائقِ تنفر ہیں ان صاحبوں کی صفوں میں کوئی نشہ باز یا قمار باز یاسود خوار شیخ صاحب تجار یا رشوت ستاں مرزا صاحب عہدہ دار آکر کھڑے ہوں توہرگز نفرت نہ کریں گے۔ اور اگرکوئی کپتان یا کلکٹر صاحب یاجنٹ مجسٹریٹ صاحب یا اسسٹنٹ کمشنرصاحب یاجج ماتحت صاحب آکر شامل ہوں تو ان کے برابرکھڑے ہونے کو تو فخر سمجھیں گے حالانکہ ﷲ ورسول کے نزدیک یہ افعال اور پیشے کسی فعل مکروہ سے بدرجہا بدتر ہیں،وﷲ یقول الحق وھویھدی السبیل

درمختار وغیرہ میں ذلیل پیشہ کا ذکر کرکے فرمایا: "واما اتباع الظلمۃ فاخسّ من الکل۔

توثابت ہوا کہ ان کی نفرت خدا کے لئے نہیں، بلکہ محض نفسانی آن بان اور رسمی تکبر کی شان ہے، تکبر ہرنجاست سے بدتر نجاست ہے۔ اور دل ہرعضو سے شریف ترعضو ۔ افسوس کہ ہمارے دل میں تو یہ نجاست بھری ہو اور ہم اس مسلمان سے نفرت کریں جو اس وقت پاک صاف بدن دھوئے پاک کپڑے پہنے ہے، غرض جو حضرات اس بیہودہ وجہ کے باعث اس مسلمان کو مسجد سے روکیں گے وہ اس بلائے عظیم میں گرفتار ہوں گے جو آیت کریمہ میں گزری کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے ، اور جوحضرات خود اس وجہ سے مسجد وجماعت ترک کریں گے وہ ان سخت سخت ہولناک وعیدوں کے مستحق ہوں گے جو ان کے ترک پر وارد ہیں۔ یہاں تک کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "الجفاء کل الجفاء، والکفر والنفاق من سمع منادی ﷲ ینادی ویدعو الی الفلاح فلایجیبہ۔”
ظلم پوراظلم اور کفر اور نفاق ہے کہ آدمی مؤذن کو سنے کہ نماز کے لئے بلاتا ہے اور حاضر نہ ہو۔رواہ الامام احمد والطبرانی فی الکبیر عن معاذ بن انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
اور جو بندہ خدا ﷲ عزوجل کے احکام پر گردن رکھ کر اپنے نفس کو دبائے گا اور اس مزاحمت ونفرت سے بچے گا مجاہدہ نفس وتواضع للہ کا ثوابِ جلیل پائے گا
بھلا فرض کیجئے کہ ان مساجد سے تو ان مسلمانوں کو روک دیا وہ مظلوم بیچارے گھروں پرپڑھ لیں گے، سب میں افضل واعلٰی مسجد مسجد الحرام شریف سے انہیں کون روکے گا؟ اس مسلمان پر اگر حج فرض ہو توکیا اسے حج سے روکیں گے؟ اور خدا کے فرض سے باز رکھیں گے یا مسجد الحرام سے باہرکوئی نیاکعبہ اسے بنادیں گے کہ اس کا طواف کرے؟ ﷲ تعالٰی مسلمانوں کو ہدایت بخشے، آمین!
اس تقریر سے ثابت ہوگیا کہ مسجد کے لوٹے جوعام مسلمانوں پر وقف ہیں ان سے وضو کو بھی اسے کوئی منع نہیں کرسکتا جبکہ اس کے ہاتھ پاک ہیں۔
رہامصافحہ خود ابتدا کرنے کا اختیار ہے کیجئے یا نہ کیجئے ۔ فان المصافحۃ بعد الصلوات علی الاصح من المباحات، والمباح لا یلام علی فعلہ ولا ترکہ۔
مگرجب وہ مسلمان مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے اور آپ اپنے اس خیال بے معنی پر ہاتھ کھینچ لیجئے تو بیشک بلاوجہِ شرعی اس کی دل شکنی،اور بیشک بلاوجہ شرعی مسلمان کی دل شکنی حرام قطعی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من اٰذی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اﷲ۔جس نے کسی مسلمان کو ایذادی اس نے بےشک مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے بیشک اﷲ عزوجل کو ایذادی۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
(فتاوی رضویہ ج٣ص٣۴٦ ، ٣۴٧ ، ٣۴٨)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ پر ذات برادری کی جنگ چھیڑنے کا اتہام لگانے والے کو مذکورہ بالا طویل اقتباس بار بار پڑھنا چاہیے۔اگر وہ تعصب سے دور اور انصاف پسند ہوگا تو اس اعتراف پر مجبور ہوگا کہ اس عظیم ہستی پر میرا یہ اتہام سراسر غلط ہے۔
کیا ذات برادری کی جنگ چھیڑنے والے سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی بھنگی یا جھاڑو لگانے والے سے خوب مل کر کھڑا ہونا باعث اجر و ثواب بتائے اور اس سے دوری بنانا گناہ قرار دے۔ اور ایسے لوگ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائیں تو ان سے ہاتھ نہ ملانے کو حرام بتائے۔؟؟؟
ایک نمونہ اور ملاحظہ ہو اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے ایک سید صاحب کے بارے میں سوال ہوا جن کا بعض لوگوں نے اس بنیاد پر بائیکاٹ کردیا تھا کہ انھوں نے ایک چمار عورت کو مسلمان پردہ نشین بنا کر اس سے نکاح کر لیا تھا تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا:
"مسلمان کرنا باعث اجر عظیم ہے اور اس سے نکاح کرنا پردہ میں بٹھانا بھی کارخیر ہے اور ا س بنا پر اسے برادری سے خارج کرنا ظلم ہے ۔”
(فتاوی رضویہ ج۵ ص١٦٨)

ہاں! شادی بیاہ کے معاملہ میں چوں کہ شریعتِ طاہرہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے پیشِ نظر یہ چاہتی ہے کہ شوہر نسب یا پیشہ وغیرہ امور معتبرہ فی الکفاءة میں بیوی سے کم تر نہ ہو اور یہ احادیثِ کریمہ سے ثابت ہے نیز گزشتہ کئی صدیوں سے اس کے قابلِ اعتبار ہونے میں ائمہ اعلام اور فقہائے عظام کی واضح تصریحات موجود ہیں۔تو امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کواس کا آغاز کرنے والا سمجھنا سخت حماقت و نادانی ہوگی۔
امام جلیل الشان برہان الدین فرغانی صاحب ہدایہ رحمہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں:

"(الكفاءة في النكاح معتبرة ) قال عليه الصلاة والسلام ” { ألا لا يزوج النساء إلا الأولياء ولا يزوجن إلا من الأكفاء }” ولأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة ; لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس فلا بد من اعتبارها ، بخلاف جانبها ; لأن الزوج مستفرش ، فلا تغيظه دناءة الفراش، ( فقريش بعضهم أكفاء لبعض والعرب بعضهم أكفاء لبعض ) والأصل فيه قوله عليه الصلاة والسلام : ” { قريش بعضهم أكفاء لبعض بطن ببطن ، والعرب بعضهم أكفاء لبعض قبيلة بقبيلة ، والموالي بعضهم أكفاء لبعض رجل برجل }”
(ہدایہ اولین: کتاب النکاح)

اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو آپ کو آسانی سے ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ مرد حد درجہ تعلیم یافتہ اعلی نسب اور متمول گھرانہ سے تعلق رکھنے کے باوجود کسی ان پڑھ کم نسب اور غریب عورت سے نکاح کرکے ایک خوش گوار ازدواجی گزار لیتا ہے۔لیکن ایسی مثالیں بڑی مشکل سے ملیں گی کی ان اوصاف سے آراستہ کوئی خاتون کسی گنوار کم نسب اور مفلس مرد کو شوہر ماننے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرسکے اس لیے شریعتِ طاہرہ نے اس امر کا لحاظ فرمایا کہ مرد عورت سے از روئے نسب اور پیشہ اتنا کم تر نہ ہو کہ ایسی شادی اولیائے زن کے لیے باعث ننگ و عار ہو اور تاحیات ایک ساتھ زندگی گزارنے کا پاکیزہ عقد اجیرن اوردشوار گزار بن جائے۔

پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ ہندوستان میں عام طور پر مرد اور عورت دونوں کے لحاظ سے نسب پیشہ مالداری کا اعتبار ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح لڑکی کے لیے شوہر ڈھونڈھنے میں اسی خاندان، پیشہ وغیرہ امور کا لحاظ کیا جاتا ہے اسی طرح لڑکے کے لیے دولھن کی تلاش میں یہی امور ملحوظ اور پیشِ نظر ہوتے ہیں۔تو اگر اعلی حضرت علیہ الرحمہ ذات برادری کی جنگ کو فروغ دینے والے ہوتے تو آپ یہ بھی تحریر کرتے کہ لڑکی بھی نسب پیشہ وغیرہ امور معتبرہ فی الکفاءة میں لڑکے سے کم تر نہ ہو ۔ کیا کوئی آپ کی تحریروں سے ہزار تلاش و جستجو کے بعد بھی ایک ایسی مثال پیش کرسکتا ہے کہ آپ نے نکاح کے سلسلے میں یہ تحریر فرمایا ہو کہ لڑکی کے لیے بھی یہ لحاظ ہے کہ وہ بالغ لڑکے سے کم تر نہ ہو۔بلکہ اس کے برخلاف آپ تحریر فرماتے ہیں:
"عورت کے لیے کفاءت مرد بالاجماع ملحوظ جس کی بنا پراحکام مذکورہ متفرع ہوئے اورمرد بالغ کے حق میں کفاءت زن کا کچھ اعتبار نہیں کہ دناءت فراش وجہ غیظ مستفرش نہیں ہوتی .(۵/ ٢٦٣)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"بالغ مرد کے لیے کفاءت کچھ شرط نہیں”
(فتاوی رضویہ ج۵ ص١٦٨)

حاصل یہ کہ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی طرف ذات برادری کی جنگ چھیڑنے کا الزام سراسر اتہام وبہتان ہے اور ایسا اتہام لگانے والا اگر متعنت نہیں تو جاہل ہے اور اگر جاہل نہیں تو متعنت ہے۔ رزقنا اللہ حسن الادب مع الائمّة الاعلام والفقہاء العظام۔ وھو الموفق لکل خیر۔

و ھو سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔

جمادی الاولی ١۴۴٣ھ/یکم جنوری ٢٠٢٢ء

Leave a Reply