شیخ المشاٸخ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی

شیخ المشاٸخ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی

اشرفی میاں امام اہل سنت و مرشد امام اہل سنت کی نظر میں!
(١)فخر سادات مارہرہ شریف قدوة السالکین امام العارفین الشاہ سید آل رسول مارہروی رضی اللہ عنہ
(٢)اور امام اہلسنت امام عشق ومحبت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ
ان دونوں مشاٸخ کی نظر میں مجدد سلسلہ اشرفیہ ہم شبیہ غوث الاعظم سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ کیا تھا اس بات کا اندازہ ایک تاریخی واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے اور وہ یادگار و قابل رشق تاریخی واقعہ ۔مختصرا میں یہ تھا کہ (جب مرشد اعلی حضرت امام احمد رضا فخر سادات مارہرہ حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی نوراللہ مرقدہ نے اپنے آخری ایام میں ایک بار سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا [نوراللہ مرقدہ] سے فرمایا دہلی حضرت نظام الدین اولیا۶ [نور اللہ مرقدہ]جاو وہاں تمہاری ملاقات اولاد غوث اعظم سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی]نوراللہ مرقدہ] سے ہوگی انکو بولا کر میرے پاس لاو کیونکہ میرے پاس پیرانے پیر دستگیر حضرت غوث الاعظم عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی خاص امانت ہیں جِسے اولاد غوث اعظم میں ہم شبیہ غوث الثقلین مولانا سید علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کو عطا کرنی اور سونپنی ہے چنانچہ فرمان مرشد کے حکم کی تکمیل میں اعلی حضرت امام احمد رضا دہلی حضرت نظام الاولیا۶ کی بارگاہ میں پہنچے جب پہلی بار مسجد نظام الاولیا۶ میں حضرت علی حسین اشرفی میاں کا نورانی و عرفانی چہرا ملاحظہ فرمایا تو یہ کہے بغیر نہ رہ پاٸے
اشرفی اٸے رخت اٸینہ حسن خوباں۔۔
اٸے نظر کردہ و پروردہ و سہ محبوباں۔۔
پھر سلام و ملاقات کے بعد پیر ومرشد کا فرمان سنایا پھر امام اہلسنت امام احمد رضا اور اعلی حضرت اشرفی میاں)بارگاہ سرکار مارہرہ حضرت سید شاہ آل رسول ]نوراللہ مرقدہ]میں حاضر ہوٸیں سلام و ملاقات کے بعد اعلی حضرت اشرفی میاں کو امام الواسلین قدوة السالکین حضرت سید آل رسول مارہروی [نوراللہ مرقدہ] نے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی اجازت و خلافت بخشی اور فرمایا(جسکا حق تھا اس تک یہ امانت پہنچادی)
[ماخوذ۔صحاٸف اشرفی صفحہ نمبر ٢٤۔ بعنوان۔قلمات تصدیر۔ از قلم حضرت اشرف العلما۶ سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی( نوراللہ مرقدہ)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی نظر میں اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کیا تھے اس پر ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں اور یہ بھی دیکھیں کے دونوں بزرگوں کے درمیان کس انداز کے تعلق و روابط تھے چنانچہ شہزادہ محدث اعظم ہند علامہ سید حسن مثنی انور صاحب قبلہ کچھوچھوی ماہنامہ المیزان کچھوچھہ میں تحریر فرماتے فرماتے ہیں کہ(شیخ المشائخ جب شہر بریلی رونق افروز ہوئے تو وہیں امام احمد رضا فاضل بریلوی سے ملاقات ہوئی اور پھر’ملاقات کا’سلسلہ دراز ہوتا ہی گیا دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کو بھت قریب سے دیکھا اور مراتب علیا سے واقف ہوئے شیخ المشائخ امام موصوف کے تبحر علمی اور دینی فہم و بصیرت کے بہت معترف تھے اسی طرح امام احمد رضا علیہ الرحمہ حضرت شیخ المشائخ کی شیخیت اور جمال ظاہری و باطنی نیز روحانی کمالات کے دلدادہ تھے(ماہنامہ المیزان کچھوچھہ بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ حافظ ملت نمبر ص ٥٢٦ تا ٥٢٧)
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی نظر میں امام العارفین سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ کیا تھا؟اس پر ایک اور روایت ملاحظہ کریں ۔اور ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے اکابرین کے درمیان کس طرح ایک دوسرے کے لئے ادب و احترام۔اور اخوت و محبت کا مضبوط رشتہ تھا (چناں چہ حضرت علامہ مولانا محمد احمد مصباحی سابق پرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارکپور مدظلہ العالی امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ(مولانا فضل رسول بدایونی قدس سرہ کے عرس میں ایک بار شرکت فرمائی۔مولوی سراج الدین آنولوی کوئی میلاد خواں واعظ تھے۔انہوں دوران تقریر یہ کہا کہ۔پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک میں روح ڈالیں گے۔چونکہ اِس میں حیات انبیاء علیہم السلام کے مسلمہ اصول سے اِنکار نکلتا تھا۔یہ سن کر اعلی حضرت کا چہرہ متغیر ہو گیا۔اور مولانا عبد القادر علیہ الرحمہ سے فرمایا۔آپ اِجازت دیں تو میں اِن کو منبر سے اتار دوں۔مولانا-عبد القادر-علیہ الرحمہ نے ان کو بیان سے روک دیا۔اور مولانا عبد المقتدر صاحب سے فرمایا کہ۔ایسے بے علم لوگوں کو مولانا احمد رضا خان کے سامنے میلاد شریف پڑھنے نہ بٹھایا کیجئے۔جن کے سامنے بیان کرنے والے کے لئے علم اور زبان کو بہت نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلہ میں اعلی حضرت نے فرمایا۔اِن ہی وجوہ سے آج کل کے واعظین اور میلاد خوانوں کے بیانوں۔واعظوں۔میں جانا چھوڑ دیا۔اور حضرت شاہ علی حسین صاحب اشرفی میاں کچھوچھوی۔علیہ الرحمہ۔کے متعلق فرمایا کہ حضرت ان میں سے ہیں جن کا بیان خوشی سے سنتا ہوں)
(ماہنامہ اعلی حضرت کا صد سالہ عرس رضوی نمبر ص۔١١٣۔تا ١١٤۔جلد۔٥٨۔شمارہ۔١١-١٢۔جلد۔٥٩۔شمارہ۔١۔صفر المفظر تا ربیع الآخر ١٤٤٠۔ھ۔نومبر۔دسمبر۔٢٠١٨ء۔جنوری۔٢٠١٩ء۔)و ماہنامہ سالک؛ جولائی ١٩٦١ء ص ٢٣”بحوالہ مقالات اشرفیہ:محدث اعظم کانفرنس ١٩٩٦ء(پاکستان) ص ٨٠)
۔غور کریں کہ حضرت عبد القادر بدایونی قدس سرہ کے بقول جس امام اہلسنت الشاہ امام رضا خان قدس سرہ کے سامنے بیان کرنے کے لئے علم۔اور زبان۔کو بہت نگاہ کی ضرورت ہو۔وہی امام اہلسنت ۔مجدد سلسلہ اشرفیہ ہم شبیہ غوث جیلانی سید علی حسین اشرفی میاں اشرفی جیلانی قدس سرہ کے خطاب نیاب کو خوشی سے سماعت کرتے ہیں تو اندازہ لگائیں کے اشرفی میاں قدس سرہ کے علم اور زبان و بیان کی نگاہ کا عالم کیا ہوگا؟اور دیکھیں کہ امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا کی نظر میں امام العارفین سید علی حسین اشرفی میاں کا مقام کیا تھا کہ سامع بن کر بخوشی آپ کے خطاب کو سماعت کیا کرتے تھے
علامہ سید غلام بھیگ نیرنگ اشرفی علیہ الرحمہ کی نظر میں:
علامہ سید غلام بھیگ نیرنگ اشرفی علیہ الرحمہ(مرید و خلیفہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں)حضور سید اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:ہمارے اعلیٰ حضرت قبلہ و کعبہ ایک خاص اعتبار سے محض ظاہر بیں آنکھوں کے لیے ایک عجیب تصویر دل کش ہیں،یعنی آپ کو اکثر مشائخ نے آپ کے جد اعلیٰ جناب محبوب سبحانی قطب ربانی سید ابو محمد محی الدین عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے شکل و صورت میں نہایت مشابہ بیان کیا ہے۔
(بحوالہ:صدر العلماء محدث میڑھی حیات و خدمات(دوم)ص ٢٧١، ناشر ارادہ ترویج و اشاعت مسجد نور الاسلام بولٹن یو کے)

(٣)اشرفی میاں امام النحو کے نظر میں!
امام النحو۔صدر العلما۶۔حضرت علامہ مولانا سید غلام جیلانی(میرٹھی)نور اللہ مرقدہ کی نظر میں اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی کا مقام و مرتبہ کیا تھا اس بات کو سمجھنے کے لٸے راقم عرض کرتا ہیکہ امام النحو۔صدر العلما۶۔ نے اپنی تصنیف(بشیر القاری بشرح صحیح بخاری)کے دیباچہ میں بقلم خود اپنی سوانح حیات ترتیب دی ہیں۔سوانح حیات لکھتے لکھتے جب اپنے سلسلہ بیعت کا ذکر فرمایا تو امام النحو نے اپنے پیر و مرشد(عالم ربانی شیخ المشاٸخ مجدد سلسلہ اشرفیہ ہم شبیہ غوث جیلانی سید علی حسین المعروف بہ اعلی حضرت اشرفی میاں نور اللہ مرقدہ)کو کن القابات عظیمة سے یاد فرمایا ہے اور اپنے شرف بیعت کا ذکر کس انداز میں فرمایا ہے ملاحظہ کریں اور اندازہ لگاٸیں کہ امام النحو کی نظر میں اعلی حضرت اشرفی میاں نور اللہ مرقدہ کا مقام و مرتبہ کیا ہے لکھتے ہیں(قدوة السالکین۔زبدة العارفین۔ملجا و ماویٰ۔مابیکساں مرجع۔وملاذ کاملاں۔اشرف المشاٸخ۔سیدنا ومولانا الشاہ سید علی حسین صاحب کچھوچھوی قد سرہ القوی۔کے دست حق پرست پر بریلی شریف میں بموقع عرس رضوی غالباً ١٩٢٢ ۶ میں شرف بیعت حاصل ہوا۔اور دارالخیر اجمیر شریف میں بتاریخ ١٢ ذی الحجہ ١٣٥٠ ھ میں خلافت نامہ سے نوازہ تھا۔اور خلافت نامہ کے ساتھ ایک کلاہ اور استعمالی جبہ عطا فرمایا۔جسکے متعلق اہل خانہ کو وصیت کردی ہے کہ میرے کفن میں شامل کردیا جاٸے کیونکہ بزرگان دین کے ملبوسات شامل کفن کرنا مسنون ہے(یعنی امام النحو سید غلام جیلانی میرٹھی نور اللہ مرقدہ مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت اشرفی میاں کے مرید وخلیفہ تھے۔۔۔۔ناقل۔)[پھر آگے امام النحو لکھتے ہیں کہ)سلسلہ اربعہ مشہورہ(یعنی قادریہ۔چشتیہ۔سروردیہ۔نقشبندیہ…..ناقل۔) کے ساتھ ساتھ سلسلہ منوریہ کی بھی اجازت عطا فرماٸی جس میں وساٸط اقل قلیل ہیں فقیر سے حضور غوث اعظم سیدنا الشیخ سید عبد القادر جیلانی قد سرہ النورانی تک صرف پانچ واسطے پڑے ہیں [پھر امام النحو آگے لکھتے ہیں]ارباب کشف نے فرمایا ہیکہ آپ(یعنی اعلی حضرت اشرفی میاں)حسن صوری کے اعتبار سے اپنے جدید امجد غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے شبیہ(یعنی ہم شکل۔۔۔۔ناقل) تھے اور حسن معنوی کے اعتبار سے اولیا۶ کرام میں محبوبیت کے مرتبہ چہارم پر فاٸز۔[تھے]اول۔ محبوب سبحانی حضور غوث اعظم۔رضی اللہ عنہ۔دوم۔محبوب الٰھی حضرت سلطان المشاٸخ(یعنی حضرت نظام الاولیا۶ چشتی رضی اللہ عنہ….ناقل۔).سوم۔محبوب یزدانی حضور مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ۔چہارم۔محبوب رحمانی آپ(یعنی اعلی حضرت اشرفی میاں۔۔۔۔ناقل۔)رضی اللہ عنہ(ہیں)[پھر امام النحو آگے لکھتے ہیں]مجدد ماٸة حاضرة اعلی حضرت عظیم البرکت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی قدسرہ القوی کے قلم حقیقت رقم نے اپنے محققانہ انداز میں آپ(یعنی اعلی حضرت اشرفی میاں۔۔۔۔ناقل۔)کے مذکورہ بالا ہر دو حسن صوری و معنوی کی جانب راہ نماٸی کرتے ہوٸے عرض کیا تھا
=اشرفی اٸے رخت آٸینہ حسن خوباں=
اٸے نظر کردہ و پروردہ سہ محبوباں=
[حوالہ۔بشیر القاری بشرح صحیح بخاری۔صفحہ نمبر ١٧تا١٨۔بعنوان دیباچہ۔مصنف صدر العلما۶ امام النحو علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی۔ناشر۔میر محمد کتب خانہ ارام باغ کراچی۔]
(٤)اشرفی میاں حافظ ملت کی نظر میں!*
حضور حافظ ملت شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ اپنے پیر و مرشد(ہم شبیہ غوث اعظم مجدد سلسلہ اشرفیہ شیخ المشائخ اعلی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ)کے متعلق’طلبہ جامعہ اشرفیہ مبارکپور’ کے سامنے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ(حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ جن کی ولایت میں کوئی شبہ(شک)نہیں ان کی شان یہ تھی کہ چہرہ مبارک پر نور کی بارش ہوتی تھی- جہاں بیٹھ جاتے ایک بھیڑ جمع ہو جاتی- کیا ہندو کیا مسلمان تمام مذہب والے دیکھ کر فریفتہ ہو جاتے- جب حضرت’اشرفی میاں علیہ الرحمہ’ایک مرتبہ اجمیر شریف تشریف لے گئے-جمعہ کا دن تھا- جمعہ کی نماز پڑھائی- اور پھر نماز بعد تقریر فرمائی- اس کے بعد فرمایا- آج فقیر خواجہ کی بارگاہ میں بیعت کرنا چاہتا ہے- جس کا جی چاہے اپنا ہاتھ دیدے-یہ فرمانا تھا کہ سارا مجمع ٹوٹ پڑا-اور تمام حاضرین فوراً داخل سلسلہ ہو گئے-ایسا منظر اور ایسی مقبولیت تو میں نے دیکھی نہیں- اجمیر شریف کے اسٹیشن پر میں نے دیکھا کہ حضرت’اشرفی میاں علیہ الرحمہ’لیٹے ہوئے ہیں نہ کسی سے کچھ کہنا نہ بولنا لیکن لوگ ہیں کہ جوق در جوق زیارت کے لئے چلے آرہے ہیں- آپ(یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ)حج سے تشریف لائے تو بیمار ہو گئے مجھے(یعنی حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو) معلوم ہوا تو فوراً کچھوچھہ مقدسہ زیارت کے لئے حاضر ہوا حضرت نے دیکھتے ہی سب سے پہلے مدرسہ کے بارے دریافت فرمایا کہ مدرسہ چل رہا ہے؟میں عرض کیا حضور! مدرسہ چل رہا ہے پھل رہا ہے پھول رہا ہے اس وقت تقریباً ستر طلبہ کو خوراک ملتی ہے-(حافظ ملت علیہ آگے فرماتے ہیں کہ(اور جب حضرت’اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ’نے بازار میں نئے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا تاریخی نام باغ فردوس(١٣٩٣)ہے اور یہ واقعی باغ فردوس ہے اس کا یہ نام آسمان سے اترا ہے تو اس کی پہلی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت’اشرفی میاں علیہ الرحمہ’نے فرمایا:جو اس’مدرسہ’ کی ایک اینٹ کھسکائے گا خدا اس کی دو اینٹ کھسکائے گا:
/ ملفوظات حافظ ملت ص ٤٠ تا ٤١’مرتب-مولانا اختر حسین فیضی مصباحی’اشاعت ١٤١٥ھ’ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ’بحوالہ- ماہنامہ اشرفیہ جنوری.فروری. ١٩٨٣ء’از مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی/
-حضرت علامہ مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی صاحب قبلہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیکہ(میں اور مولانا محمد احمد صاحب مصباحی بھیروی- حضرت حافظ ملت کے حضور(پاس)سلسلہ معمریہ میں طالب ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے کہ اس کے ذریعہ غوث پاک سے صرف چار واسطہ ہے اور روحانی فیوض و برکات سے محظوظ ہونے کا زیادہ موقع ملے گا مقصد جان کر حضرت’حافط ملت علیہ الرحمہ’نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور-حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا-حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ بڑی خصوصیتوں کے مالک تھے ان میں ایک خصوصیت یہ ہیکہ آپ نہایت خوبصورت وجیہ اور لانبے تھے-اب تک آپ جیسا چہرہ دیکھنے میں نہیں آیا-آپ کا لقب شبیہ غوث’اعظم’تھا حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کو عالم خواب میں دیکھنے والوں نے اس شہادت دی ہے-اور ان کے’یعنی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے’شبیہ غوث’اعظم’ ہونے کا اقرار کیا ہے
// ملفوظات حافظ ملت ص ٧٠’مرتب-مولانا اختر حسین فیضی مصباحی’اشاعت ١٤١٥ھ’ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ’بحوالہ- قلمی یادداشت-از مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی/
(نوٹ)یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ حضور حافظ ملت شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ اپنے پیر و مرشد حضور اعلی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر اجمیر شریف میں سلسلہ’اشرفیہ منوریہ معمریہ قادریہ’میں بیعت ہوئے تھے-اور بعدہ حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کو اپنے پیر و مرشد سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی تھی(دیکھئے کتاب ‘حافظ ملت ارباب علم و دانش کی نظر میں ص ٤٤ و ص ٧٢ و ماہنامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر ص ٩١ )
اور خاندان اشرفیہ میں سلسلة الذہب(یعنی سلسلہ منوریہ معمریہ قادریہ)شیخ المشائخ ہم شبیہ غوث الاعظم اعلی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے واسطے سے آئی ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہیکہ (اعلی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو حضرت شاہ مولانا محمد امیر کابلی علیہ الرحمہ نے سلسلہ قادریہ منوریہ کی اجازت سے نوازا۔اور اس سلسلہ کو سلسلة الذہب کہتے ہیں جو عرفی طور سے چار واسطوں سے حضور قطب ربانی قندیل نورانی محبوب سبحانی سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ تک پہونچتا ہے) یعنی حضور سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو اجازت و خلافت حضور شاہ مولانا محمد امیر کابلی علیہ الرحمہ سے ملی ان کو اجازت و خلافت حضور ملا اخون علیہ الرحمہ سے ملی ان کو اجازت و خلافت حضور شاہ منور الہ آبادی علیہ الرحمہ سے ملی جن کی عمر ساڑھے پانچ سو برس کی ہوئی اور ان کو اجازت و خلافت حضور شاہ دولہ قدس سرہ سے ملی اور ان کو اجازت و خلافت حضور غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے ملی
/بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر ص ٥٢٨’اڈیٹر علامہ بدر القادری صاحب قبلہ/
نیز’سلسلہ اشرفیہ منوریہ معمریہ قادریہ’ کی جو تفصیل مذکور ہوئی یہی تفصیل اور اس سلسلہ اشرفیہ منوریہ معمریہ قادریہ کی فضیلت پر جامع گفتگو شیخ الاسلام والمسلمين علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی نے بھی اپنی کئ تقاریر میں فرمائی ہے جو کہ یوٹیوب پر کلپس کی شکل میں موجود ہے ایک کلپ کی یوٹیوب لنک یہاں حاضر ہے
https://youtu.be/DOXtBaql5p0 سماعت کر سکتے ہیں
اعلی حضرت اشرفی میاں مفتی محمد عمر نعیمی اشرفی کی نظر میں
امام الہند صدر الفاضل فخر الاماثل حضور سید نعیم الدین قادری اشرفی محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کے تلیمذ ارشد اور معتمد علیہ جامعہ نعیمیہ مرادآباد کے فرزند اول استاذ الاساتذہ -سلطان القلم تاج العلماء حضور مفتی محمد عمر نعیمی اشرفی(محدث کراچی) علیہ الرحمہ (مدیر اعلیٰ ماہنامہ السواد الاعظم مرادآباد)کی نظر میں مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کیا مقام رکھتے تھے؟اس بات کا اندازہ حضرت مفتی محمد عمر نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل عبارت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں سرزمین مرادآباد میں واقع اہل سنت وجماعت کے مشہور علمی قلعہ جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں دو روزہ محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انعقاد کی مختصر تفصیل ماہنامہ السواد الاعظم مرادآباد میں پیش کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ(دوسرے روز علماء کی تقریروں کے بعد زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین امام الاولیاء حضرت مرشدی و مولائی مولانا الحاج سید شاہ علی حسین صاحب اشرفی جیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی نے عجب برکت بھری تقریر فرمائی اور اپنی زبان مبارک اپنے جد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رونق افروزی کا تذکرہ کچھ ایسے حسن بیان کے ساتھ ادا فرمایا کہ سامعین محو ذوق ہو گئے ایک بجے شب کے مجلس ختم ہو گئی مگر مجمع کی وارفتگی کا عالم یہ تھا کہ حاضرین اٹھنا نہیں چاہ رہے تھے!
/ماہنامہ السواد الاعظم مرادآباد شمارہ ربیع الاول ١٣٤٨ھ بحوالہ مقالات تاج العلماء ص ٥٤ تا ٥٥ ترتیب و تحقیق علامہ غلام مصطفٰی نعیمی مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی ناشر مکتبہ نعیمیہ مٹیا محل دہلی اشاعت دسمبر ٢٠١٥ء/
(یاد رہے علامہ محمد عمر نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ شہر مرادآباد میں پیدا ہوئے جامعہ نعیمیہ مرادآباد سے فراغت ہوئی آپ کے سر پر دستار فضیلت حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنے ہاتھوں سے باندھی تھی بعد فراغت مادر علمی جامعہ نعیمیہ میں ١٩١١ء سے ١٩٥١ء تک تدرسی خدمات انجام دیتے رہے بعدہ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے آپ علیہ الرحمہ حضور اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے ساتھ ہی آپ علیہ الرحمہ کو آپ کے پیر مرشد کی طرف مجاز بیعت کی اجازت بھی حاصل تھی پیر و مرید کی محبت کا اندازہ صرف اس عبارت سے لگائیں کہ حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ علامہ مفتی محمع عمر نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ سے فرمایا کرتے تھے کہ(مولانا آپ کو مشائخ کی طرح عبادت و ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہے نہ کسی اور عمل کی آپ کی عبادت و ریاضت یہ ہے کہ درس تدریس کی خدمت انجام دیتے رہیں
/مختصر تذکرہ تاج العلماء ص ٦ بحوالہ مقالات تاج العلماء ص ٢٤ تا ٢٥/
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ
علامہ احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ کی نظر میں
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و مرتبہ حضور علامہ احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ کے نزدیک کیا تھا آپ کی تحریر ہی سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے چناں چہ ایک جگہ لکھتے ہیں:فقیر کے دادا پیر حضور اشرفی میاں جیلانی قدس سرہ بالکل ہم شکل حضور غوث الثقلین تھے جہاں بیٹھ جاتے تھے مسلم وغیر مسلم زائرین کا ہجوم لگ جاتا تھا،بہت لوگ انہیں دیکھ کر ہی مسلمان ہوگئے،یہ ہے اس حدیث کہ(تم میں بہترین وہ ہیں کہ جو جب دیکھے جائیں تو خدا یاد آجائے) کی جیتی جاگتی تفسیر،
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابيح ج ٦،ص ٨٤٤،باب الحب فی اللہ و من اللہ کی حدیث نمبر ٨٥١، کی تشریح کے تحت)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:ہمارے دادا پیر حضرت شاہ علی حسین صاحب کچھوچھوی رحمۃاﷲ علیہ عرف اشرفی میاں نے اپنی موت و کفن کے لیے یمنی حلہ،طائف شریف کا شہد،آبِ زمزم اور خاک شفا محفوظ رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ نزع کے وقت یہ شہد،پانی اور خاک شفا ملاکر میرے منہ میں ٹپکایا جائے اور اس حلہ یمنی میں مجھے کفن دیاجائے،یہ اسی حدیث پرعمل تھا۔الحمدﷲ!کہ فقیر اس وقت حاضر تھا بلکہ حضرت کو غسل میں نے دیا۔
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابيح ج ٢،ص ٨٦٥،باب غسل المیت وتکفینہ کی حدیث نمبر ٨٦٥، کی تشریح کے تحت)
اعلی حضرت اشرفی میاں حضرت شاہ سید تراب الحق کی نظر میں
پیر طریقت رہبر راہ شریعت عالم باعمل فقیہ وقت مبلغ اسلام حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کراچی پاکستان حضور شیخ المشائخ مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ(دوسرے بزرگ’یعنی حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ کے بعد’ جنہوں نے اس سلسلے میں’یعنی سلسلہ اشرفیہ میں’ بہت شہرت پائی وہ حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ ہیں-اپنے دور کے اکابر علماء کی ایک بہت بڑی تعداد حضرت سے بیعت تھی-اور عوام کا تو پوچھنا ہی کیا ان کی تعداد لاکھوں میں تھی اپنے دور کے جید اور اکابر علماء جن کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیں ان کی’ یعنی اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی’بزرگی پر دلالت کرتا ہے
معارف اشرفیہ ص ٢ تالیف علامہ سید شاہ ممتاز اشرفی مہتمم دارالعلوم اشرفیہ رضویہ کراچی پاکستان ناشر دارالعلوم اشرفیہ رضویہ سیکٹر ١٦ گلشن بہار اور گی ٹاؤن کراچی پاکستان)

اعلی حضرت اشرفی میاں سلطان الواعظین کی نظر میں

سلطان الواعظین حضرت علامہ مولانا ابو النور محمد بشیر لاہوری علیہ الرحمہ لاہور میں ہوئے ایک جسلہ مناظرہ کا نقشہ بیان کرتے ہوئے حضور اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق جو باتیں تحریر فرمائی ہیں اسے ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ سلطان الواعظین کی نظر میں اور دیگر علماء و مشائخین لاہور پاکستان کی نظر میں اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ کی ذات عالی مرتب کیا تھی؟چنانچہ لکھتے ہیں کہ(اہل سنت کے اسٹیج پر ایک بلند منبر رکھا گیا جس پر حضرت مولانا سید علی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما تھے اور دیگر علماء اہل سنت اسٹیج پر رونق افروز تھے؛ حضرت قبلہ عالم سید علی حسین صاحب حضرت غوث اعظم قدس سرہ کی اولاد میں سے تھے اور بے حد وجیہ تھے سفید نورانی چہرہ؛سفید ریش؛سبز جغہ؛اور سر پر عمامہ غوثیہ سبحان اللہ!صرف اس ایک ہستی سے سارے اجتماع میں رونق و بہار نظر آرہی تھی
(سنی علماء کی حکایات ص ٨١؛بحوالہ ماہنامہ سہ ماہی سواد اعظم دہلی(کا صدر العلماء نمبر) جنوری فروری مارچ ص ٢٦ شمارہ ٢٠١٢)
اعلی حضرت اشرفی میاں علامہ حلیم احمد اشرفی کی نظر میں
تلمیذ رشید حضور صدر الفاضل حضرت علامہ حلیم احمد اشرفی نعیمی بلیاوی(مدرس دارالعلوم امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی پاکستان) حضور اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ(اعلی حضرت اشرفی میاں کی صورت ایسی موہنی اور پیاری تھی کہ اس کو بار بار دیکھنے کو جی چاہتا تھا باوجودیکہ میری عمر کم تھی ایسی دلکش صورت دیکھی ہی نہ تھی
معارف اشرفیہ ص ٤-تالیف علامہ سید شاہ ممتاز اشرفی مہتمم دارالعلوم اشرفیہ رضویہ کراچی پاکستان- ناشر دارالعلوم اشرفیہ رضویہ سیکٹر ١٦ گلشن بہار اور نگی ٹاؤن کراچی پاکستان

اعلی حضرت اشرفی میاں مفتی شریف الحق امجدی کی نظر میں
تلمیذ صدر الشریعہ شارح بخاری مفتی الجامعۃ الاشرفیہ حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی نظر میں اعلی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ کیا تھا اس کا اندازہ علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ) ہمارے یہاں کے”یعنی علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کے یہاں یعنی گھوسی کے”سارے اہل سنت شیخ المشائخ تاج الاصفیاء حضرت مولانا سید شاہ علی حسین صاحب اشرفی قدس سرہ کے مرید تھے – – والدین بھی “یعنی علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کے والدین بھی”انہیں سے”یعنی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ “سے مرید تھے – -) پھر علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اپنے والدین کی بیعت کے متعلق لکھتے ہیں کہ) والدین جب بیعت ہوئے تھے تو میں بہت چھوٹا تھا پورے طور سے شعور بھی بیدار نہیں ہوا تھا صرف اتنا یاد ہے کہ اس دن ہمارے گھر بہت اچھے اچھے کھانے پکے تھے جن میں سے فیرنی مجھے اب بھی یاد ہے؛ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ اس وقت کیا لباس پہنے ہوئے تھے ان کا کیا حلیہ مبارک تھا؛ صرف اتنا یاد ہے کہ اس وقت چمڑے کا موزہ پہنے ہوئے تھے؛ اس کے بعد حضرت”اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ “کئی مرتبہ گھوسی تشریف لائے ہر بار والد صاحب مجھے ان کی خدمت میں لے آتے؛ دعا کے لئے عرض کرتے؛ حضرت”اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ “نے بار بار میرے سر پر ہاتھ پھیرا ہے اور دعائیں دی ہیں؛ان دعاؤں کی برکتیں میں آج بھی محسوس کرتا ہوں؛—-حضرت “اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ “کا حلیہ جمال کا ہر نقش و نگار میرے دل و دماغ پر ثبت ہے؛—سبحان اللہ وہ نورانی دلکش چہرہ جس فردوس کی بہاریں قربان اور کیوں نہ ہو کہ مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردہ و پروردہ سہ محبوباں
جس مجلس میں تشریف رکھتے ایسا معلوم ہوتا:ملاء قدس کا کوئی فرشتہ جلوہ گر ہے:جو دیکھتا ہوش و خرد کھو بیٹھتا—ایک بار اجمیر مقدس شاہجہانی مسجد کے منبر پر تشریف رکھ کر چند دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے جس کا اثر یہ ہوا کہ مسجد کے سارے حاضرین مرید ہوگئے حضرت “اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ “کے رومال میں عمامہ باندھا گیا اور پھر اس عمامہ میں متعدد عمامے باندھے گئے—حاضرین میں علماء-رؤساء-امراء سبھی تھے – – – – – اسی موقع پر حافظِ ملت”علیہ الرحمہ “کے تمام رفقاء درس بھی مرید ہوئے تھے خود میرے دل میں حضرت “اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ “کی بہت محبت و عظمت تھی؛ جب گھوسی تشریف لاتے اپنا پڑھنا لکھنا چھوڑ کر خدمت میں حاضر رہتا جہاں جاتے پیچھے پیچھے جاتا) پھر آگے علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اپنے مرید ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ) لیکن میرا حصہ ازل سے کہیں اور تھا(پھر علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے بعد میں مرید ہوئے اور آپ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے سب سے پہلے مرید ہیں
(ماہنامہ اشرفیہ؛ صدر الشریعہ نمبر ص ٥٨ تا ٥٩)

اعلی حضرت اشرفی میاں علامہ ارشد القادری کی نظر میں:
ہم شبیہ غوث اعظم مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و مرتبہ کیا تھا فاتح نجدیت مناظر اسلام مبلغ اعظم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے نزدیک اس کا اندازہ علامہ ارشد القاری علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں(عہد قدیم سے مبارکپور – جون پور-بلیا-اعظم گڑھ – سلطان پور – اور آس پاس کے جو اضلاع ہیں وہاں کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مرکز عقیدت کچھوچھہ شریف رہا ہے – عرس مبارک”یعنی عرس مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ”کے زمانے میں مبارکپور سے بھی بڑی تعداد میں مسلمان وہاں “کچھوچھہ شریف “جاتے تھے اور سادات کچھوچھہ سے منسلک تھے-ان پر انہیں “سادات کچھوچھہ “کا اثر تھا——-حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے جو ظاہری حسن و جمال اور جاہ وجلال عطا فرمایا تھا جس کی وجہ سے حضرت”اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ “کو شبیہ غوث اعظم کہا جاتا تھا ان کے چہرہ پرنور کی زیارت سے دل پر اتنا گہرہ اثر پڑتا تھا کہ اندر سے ضمیر چیخ اٹھتا تھا کہ یہ اللہ کا سچا ولی ہے(ارشد کی کہانی ارشد کی زبانی ص ٣٠ تا ٣١۔ترتیب خوشتر نورانی۔اشاعت ستمبر ٢٠٠٧ء ناشر مکتبہ جام نور دہلی۔)
اعلیٰحضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید محمود احمد رضوی کی نظر میں!
حضور اعلیٰحضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت علامہ سیّد محمود احمد رضوی اشرفی مشہدی محدث لاہوری رحمۃ اللہ علیہ شہزاد سید ابو البرکات سید احمد اشرفی محدث لاہوری علیہ الرحمہ کی نظر میں کیا تھے۔اسکا اندازہ آپ کی مندرجہ ذیل عبارات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے لیکن عبارات پیش کرنے سے پہلے قارئین کو ذہن نشین کراتا چلوں کہ علامہ سید محمود احمد رضوی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ اڈیٹر رسالہ(رضوان لاہور)کی عبارت میں جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ انکی نظر میں کیا تھے وہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ شہزاد صدر الشریعہ علامہ عبد المصطفی اعظمی ازہری صاحب قبلہ کی نظر میں کیا تھے اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہ حسن و جمال عطاء کیا تھا کہ آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر غیر مسلم لوگ کلمہ اسلام پڑھ لیا کرتے تھے اور لوگ صرف آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اہل سنت و جماعت کی حقانیت کے قائل ہو جایا کرتے تھے اور یہ بھی آپ ملاحظہ کریں گے کہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کس طرح حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کا اکرام و احترام کرتے تھے بعدہ آپ یہ بھی ملاحظہ کریں گے کہ حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ اپنے مرید کے موقف کا کس طرح احترام کرتے تھے ان تمام نکات کے پیش نظر راقم الحروف۔حضرت علامہ محمود احمد رضوی محدث لاہوری علیہ الرحمہ کی چند عبارات نقل کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ(حضرت والد صاحب کو–(یعنی حضور مفتی اعظم پاکستان حضور سید ابو البرکات سید احمد اشرفی علیہ الرحمہ کو)—–سلسلہ عالیہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ نظامیہ چشتیہ سراجیہ میں اپنے مرشد کامل۔اعلی حضرت شیخ المشائخ حضرت الحاج سید شاہ ابو احمد—محمد علی حسین(اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ)-سجادہ نشین آستانہ عالیہ کچھوچھہ شریف سے(اجازت و خلافت حاصل تھی)-آپ کو(یعنی حضور سید ابو البرکات علیہ الرحمہ کو)اپنے مرشد برحق سے(یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے)-دعاء سیفی اور دلائل الخیرات کی خصوصی اجازت بھی عطاء ہوئی تھی جس میں ترک جمالی و جلالی سے پرہیز کی رخصت ہے۔(پھر آگے لکھتے ہیں کہ)–والد قبلہ(یعنی حضور مفتی اعظم پاکستان حضور سید ابو البرکات علیہ الرحمہ)-حضرت امام العارفين شیخ المشائخ حضرت شاہ سید علی حسین شاہ صاحب اشرفی جیلانی قدس سرہ العزیز کے مرید اور خلیفہ تھے۔حضرت(اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ)-تقریباً ہر سال ماہ رمضان المبارک میں لاہور جلوہ فرما ہوتے۔انکی تشریف آوری پر دفتر حزب الاحناف ذکر وفکر نعت خوانی اور درود و سلام کی محفلوں میں تبدیل ہو جاتا۔والد قبلہ پر(یعنی حضور سید ابو البرکات علیہ الرحمہ پر)-شیخ(پیر۔اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ)-کی نظر کرم تھی اور وہ(یعنی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ)-آپ کو(یعنی حضور سید ابو البرکات علیہ الرحمہ کو)-سید صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے۔والد قبلہ(یعنی حضور سید ابو البرکات علیہ الرحمہ)-مزامير سے قوالی نہیں سنتے تھے اور شیخ کے ہاں قوالی(مع مزامیر کے)-سنی جاتی تھی مگر شیخ کے شفقت و کرم کا یہ عالم تھا۔(کہ)لاہور میں کبھی آپ(یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ)-نے قوالی نہیں سنی۔بعض مرید مجلس قوالی کی فرمائش کرتے تو(حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ)-فرماتے نہ بابا سید صاحب(یعنی سید ابو البرکات صاحب)-قوالی پسند نہیں کرتے۔حضرت شاہ علی حسین صاحب قدس سرہ العزیز حضور غوث پاک کی اولاد سے حسنی حسینی تھے عامل باعمل عارف کامل۔جامع شریعت و طریقت تھے۔چہرا ایسا نورانی تھا کہ بس دیکھا ہی کیجیے۔آپ(یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ)-رات کو کچھ دیر آرام فرماتے ورنہ شب و روز تسبیح و تہلیل ذکر و فکر اور نوافل میں مشغول رہتے آپ تارک السلطنت مخدوم اوحدالدین سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ العزیز کے آستانہ عالیہ کچھوچھہ شریف سجادہ نشین تھے۔اعلیٰحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کے چہرے کو دیکھ کر یہ اشعار کہے تھے۔
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں=اے نظر کردہ پروردہ سہہ محبوباں۔
حضرت والد قبلہ(یعنی حضور سیدی ابو البرکات سید احمد علیہ الرحمہ)-کے شیخ(پیر)-قدوۃ السالکین حضرت سید شاہ محمد علی حسین الاشرفی الجیلانی قدس سرہ السبحانی زہد و تقویٰ عبادت و ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔وہ مبلغ اسلام بھی تھے اور شریعت و طریقت کے امام بھی اور تارک السلطنت امام العرفاء حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جمال و جلال کے آئینہ بھی۔انکی(یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی)-ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ صرف انکے چہرہ نورانی کو دیکھ کر غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے تھے۔اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے حق کی منزل کو پا لیتے تھے۔
((ماخوذ از۔کتاب بنام۔سیدی ابو البرکات ص ٧٣ تا ٧٤۔مصنف سید محمود احمد رضوی۔ناشر شعبہ تبلیغ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور)
(پھر لکھتے ہیں کہ)-حضرت علامہ عبد المصطفی ازہری مدظلہ(یعنی شہزاد حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ)-شیخ الحدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی نے عرس اشرفی کے موقع پر اپنی تقریر میں فرمایا۔(کہ)لاہور میں سن ١٣ھ مطابق سن ١٩٣٤ء حضرت سید صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کے زیر اہتمام اہل سنت و جماعت اور دیوبندی مکتبہ فکر کے درمیان آخری فیصلہ کن مناظرہ طے ہوا۔اہل سنت کی طرف سے مولانا حشمت علی خان لکھنؤی(علیہ الرحمہ)-اور دیوبندیوں کی طرف سے مولوی اشرف علی تھانوی مناظر مقرر ہوئے۔مسجد وزیر خان لاہور میں مناظرہ کی محفل جمی۔اس اجتماع میں اہل سنت کے اکابر علماء و مشائخ نے شرکت کی،حضرت شیخ المشائخ اعلیٰحضرت سید علی حسین شاہ صاحب کچھوچھوی قدس سرہ العزیز بھی جلوہ فرما ہوئے تھے۔قصہ طویل ہے مختصر یہ کہ مولوی اشرف علی تھانوی باوجود وعدہ کے میدان مناظرہ میں نہ آئے اور یوں یہ مناظرہ فیصلہ کن نہ ہو سکا۔لیکن حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی کے نورانی چہرہ کو دیکھ کر عوام نے یہ فیصلہ ضرور سنا دیا(کہ)-جس طرف ایسا نورانی چہرہ والا بزرگ ہو وہ جماعت باطل پر نہیں ہو سکتی۔
(مصدر سابق ص ٧٤ تا ٧٥)
(پھر آگے ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ)-حضرت مولانا تقدس علی خان صاحب شیخ الحدیث مدظلہ پیر گوٹھ جو اعلیٰحضرت(امام احمد رضا)-علیہ الرحمہ کے عزیز ہیں۔(وہ)-فرماتے ہیں کہ میری عمر بارہ یا تیرہ سال کی تھی جبکہ میں نے اعلیٰحضرت(امام احمد رضا)-علیہ الرحمہ سے شرح جامی کا درس لیا۔اعلی حضرت(امام احمد رضا)علیہ الرحمہ کی عام نشست ایک مسہری تھی جس پر آپ جلوہ فرما ہوتے تھے۔اس کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔جس پر لوگ آکر بیٹھتے تھے۔ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ اعلیٰحضرت(امام احمد رضا)–کی مسہری پر کوئی نہیں بیٹھتا تھا۔ایک دن جب میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ مسہری پر ایک نورانی شخصیت تشریف فرما ہیں اور اعلیٰحضرت(امام احمد رضا)-علیہ الرحمہ نہایت ادب و احترام سے(عام نشست)کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں یہ منظر دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کون ہیں۔جن کا اس قدر ادب و احترام ملحوظ رکھا گیا ہے کہ اعلیٰحضرت(امام احمد رضا)-علیہ الرحمہ نے اپنی نشست پر انہیں بٹھایا ہے۔میں پوچھنے ہی والا تھا کہ اعلیٰحضرت(امام احمد رضا)- نے فرمایا۔انہیں تعظیم دو۔یہ حضور غوث الاعظم قدس سرہ العزیز کے شہزادے حضرت سید علی حسین شاہ صاحب کچھوچھوی ہیں۔
(مصدر سابق ص ٧٥)
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں بحر العلوم علامہ عبد المنان اعظمی کی نظر میں
ہم شبیہ غوث اعظم مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و مرتبہ کیا تھا بحر العلوم حضرت علامہ عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ کے نزدیک اس کا اندازہ بحر العلوم علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:معرفت و تصوف میں حضرت شیخ مشائخ اشرفی میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے وقت میں عرب و عجم کے ممتاز بزرگوں میں سے تھے۔
(مضامین بحر العلوم حصہ دوم، ص ١١٩،ناشر امام احمد رضا اکیڈمی صالح نگر بریلی شریف،اشاعت ٢٠١٣ء)

طالب دعا_
الحقیر شبیر احمد راج محلی
بتاریخ ١ ستمبر ٢٠١٩ء

Leave a Reply