چھہ مہینے کا بچہ ثابت النسب ہوگا یا نہیں ؟

چھہ مہینے کا بچہ ثابت النسب ہوگا یا نہیں ؟

سوال : گر کسی کی شادی کے مکمل چھ (6) ماہ بعد ان کا بچے پیدا ہو جائے تو اس صورت میں اس بچے کے نسب کے بارے کیا کہیں گے ؟

اور ان کا جو نکاح ہوا وہ قائم رہے گا یا ٹوٹ جائے گا یا سرے سے ہوا بھی نہیں تھا ؟

سائل : محمد الیاس شہر چکڑالہ

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

جب شادی کے مکمل چھ (6) ماہ بعد ان کا بچہ پیدا ہوا ہے تو اس صورت میں وہ بچہ شرعاً ثابت النسب ہوگا یعنی عورت کے شوہر ہی کا مانا جائے گا اس لئے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے کہ نکاح کے چھ مہینے یا زیادہ پر بچہ پیدا ہو تو بچہ ثابت النسب ہوتا ہے۔

لہذا مذکورہ بالا صورت میں ان کا نکاح بھی شرعاً درست ہے۔

چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

"حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ”

ترجمہ : اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت دو سال میں ہے۔

(پارہ 21، سورۃ لقمان : 14)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

"حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ- وَحَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ”

ترجمہ : اس کی ماں نے اسے پیٹ میں مشقت سے رکھا اور مشقت سے اس کوجنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔

(پارہ 26، سورۃ الاحقاف : 15)

اس آیت سے ثابت ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے کیونکہ جب دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

’’وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ‘‘

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔

(سورۃ البقرۃ :233)

تو حمل کے لئے چھ (6) ماہ باقی رہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"وإذا تزوج الرجل امرأۃ فجاءت بالولد لأقل من ستۃ أشہر منذ تزوجہا لم یثبت نسبہ وان جاءت بہ لستۃ اشھر فصاعدا یثبت نسبہ منہ اعترف بہ الزوج او سکت فان جحد الولادۃ تثبت بشھادۃ امراۃ واحدۃ تشھد بالولادۃ کذا فی الھدایۃ”

یعنی جب مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا، پس وقتِ نکاح سے چھ (6) مہینے سے کم میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں ہوگا اور اگر چھ مہینے یا زیادہ پر بچہ پیدا ہوا تو بچے کا نسب اس شوہر سے ثابت ہوگا، خواہ شوہر اس کا اعتراف (اقرار) کرے یا سکوت اختیار کرے، پس اگر وہ بچہ پیدا ہونے کا انکار کرے تو ایک عورت کی گواہی سے ولادت ثابت ہو جائے گی جو ولادت کی گواہی دے، ایسے ہی "الھدایہ” میں ہے۔

(فتاویٰ عالمگیری، الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب، جلد 1، صفحہ 536، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

امام ابوبکر بن علی بن محمد حداد زبیدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"قولہ : (واقلہ ستۃ اشھر) لقولہ تعالیٰ : "وَحَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ”، وقال تعالیٰ : وَ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْن، فبقی للحمل ستۃ اشھر”

یعنی امام قدوری رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے ہے : اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔ اور اللہ پاک فرماتا ہے : اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت دو سال میں ہے، پس حمل کے لئے چھ ماہ باقی رہ گئے۔

(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 2، صفحہ 259، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"حمل کی مدت کم سے کم چھ مہینے ہے اور زیادہ سے زیادہ دو سال۔۔۔۔۔ وقتِ نکاح سے چھ (6) مہینے کے اندر بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں اور چھ مہینے یا زیادہ پر ہوا تو ثابت ہے جبکہ شوہر اقرار کرے یا سکوت اور اگر کہتا ہے کہ بچہ پیدا ہی نہ ہوا تو ایک عورت کی گواہی سے ولادت ثابت ہو جائیگی۔۔۔ نکاح میں جہاں نسب ثابت ہونا کہا جاتا ہے وہاں کچھ یہ ضرور نہیں کہ شوہر دعوے کرے تو نسب ہوگا بلکہ سکوت سے بھی نسب ثابت ہوگا اور اگر انکار کرے تو نفی نہ ہوگی جب تک لعان نہ ہو او ر اگر کسی وجہ سے لعان نہ ہوسکے جب بھی ثابت ہوگا۔”

(بہارِشریعت، جلد 2، حصہ یشتم (8)، صفحہ 248، 249، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبید رضا مدنی

Leave a Reply