حدیث کا موضوع ، غرض و غایت اور حدیث کی اقسام
اصول حدیث
اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے علم حدیث کی بعض اصطلاحات اور مشہور رادیوں کا ذکر ضروری ہے اس لیے پہلے انھیں پیش کیا جاتا ہے:
علم حدیث کا موضوع : نبی کریم بیل ہی کی ذات بابرکات ہے اس حیثیت سے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔
علم حدیث :
ایسا علم ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور احوال و کوائف کی معرفت ہوتی ہے۔
غرض و غایت :
دارین کی سعادتوں سے ہم کنار ہونا۔ گویا شاعر کے اس شعر میں یہی علم مقصود ہے:
علمت بہ کمال معرفت را دہد
علمت دل پاک و جاں آگاہ دہد
گر جاہ طلب کنی تر جاہ دہد
ور حق طلبی بقا باللہ دہد
یعنی تیر ا علم کامل معرفت کی طرف رہ نمائی کرتا ہے ، تیرا علم دل کو پاکی اور جان کو آگاہی دیتا ہے۔اگر اس علم کے ذریعے جاہ و منصب طلب کرو گے تو جاہ و منصب ملے گا اور اگر رب کو طلب کرو گے تو بقا باللہ کا درجہ مل جائے گا۔
وجہ تسمیہ :
علم حدیث کی وجہ تسمیہ تا حال میری نظر قاصر سے نہیں گزری لیکن میری ناقص فہم میں اس کی یہ وجہ آتی ہے کہ آیت کریمہ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الَّا وحی یوحی (وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ، وہ تو وحی الہی ہوتی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے ) کا مقتضی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا کلام اللہ کا کلام ہے اور کثیر احادیث سےبھی اس کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرور ﷺ نے فرمایا: لا ألفين أحدكم متكئا على أريكته، يأتيه الأمر من أمري. مما أمرت به أو نهيت عنه، فيقول : لا ندري ! ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه.( ہر گز ایسا نہ ہو کہ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں پاؤں کہ وہ اپنے تخت پر مسند نشین ہو اور اس کے پاس میری کوئی بات پہنچے جس میں میںنے کسی چیز کا حکم دیا ہو یا کسی چیز سے منع کیا ہو تو وہ کہنے لگے کہ ہم نہیں جانتے، ہمیں تو کتاب اللہ میں جو ملے گا اسی پر عمل کریں گے ۔)
اس حدیث کی روایت امام احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے کی ہے۔ حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، ألا يوشك رجل شبعان على أريكته، يقول: عليكم بهذا القرآن! فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه ! ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي، ولاكل ذي ناب من السبع، ولا لقطة معاهد, إلا أن يستغني عنها صاحبها، ومن نزل بقوم فعليهم أن يقروه، فإن لم يقروه, فله أن يعقبهم بمثل قراه.
سنوا مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے۔ عن قریب ایسا ہو گا کہ ایک شکم سیر (آسودہ حال ) آدمی اپنے تخت پر بیٹھا کہے گا کہ اسی قرآن پر عمل کرو، جو اس میں[حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ (آگے حضور صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا) اللہ کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کا وہی حکم ہے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ہے۔ اور سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے اور درندے کا گوشت) اور کسی ذمی (کافر) کا گرا پڑا مال اٹھالینا حلال نہیں ، الا یہ کہ اس کا مالک اس سے
بے پرواہ ہو ۔ اور جو کسی قوم کا مہمان بنے اس قوم پر اس کی مہمانی کرنا واجب ہے۔ اگر وہ اس کی مہمانی نہ کرے تو اسے حق حاصل ہے کہ اپنی مہمانی کے مثل اس سے بذریعہ طاقت حاصل کرلے۔
اس حدیث کی روایت امام ابو داؤد نے کی ہے اور اسی مفہوم کی حدیث امام دارمی نے بھی روایت کی ہے اور اسی طرح امام ابن ماجہ نے "كما حرم اللہ “ تک حدیث کی روایت کی ہے۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : قَامَ رسول الله صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَكِئا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتَ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآن أَوْ أَكَثَرُ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنِ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكُلَ ثِمَارِ هِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمْ الَّذِي عَلَيْهِمْ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اپنے تخت پر مسند پر ٹیک لگائے یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی چیز کو حرام ٹھہرایا ہے جو اس قرآن میں ہے ؟ سنو! اللہ کی قسم ! میں نے خوب وعظ و نصیحت کی ہے، کئی باتوں کا حکم دیا ہے اور کئی چیزوں سے منع کیا ہے اور میری بات بلا شبہ قرآن ہی کے مثل ہے یا اس سے زیادہ ( مفصل ) ہے ، اللہ تعالی نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا کہ بلا اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہو یا ان کی عورتوں کو مارو یا ان کے پھل کھا جاؤ ، جب کہ وہ تمہیں اپنے ذمے کا واجب ادا کر رہے ہوں ۔
اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں صرف یہ فرق ہے کہ اللہ کا کلام قدیم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام حدیث ( یعنی حادث اور نیا ہے ) ہے تو اس اعتبار سے اس علم کوحدیث کہ سکتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔
حدیث کسے کہتے ہیں ۔
محدثین کی اصطلاح میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ قول و فعل کا مطلب تو واضح ہے۔
تقریر:
محدثین نے تقریر کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں کوئی کام کیا یا کوئی بات کہی اور حضور نے اس پر مطلع ہو کر اس سے منع نہ فرمایا بلکہ اس پر خاموش رہ کر اسے ثابت و برقرار رکھا۔
بعض محدثین نے حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر سے عام رکھا ہے اس لحاظ سے حدیث صحابہ کرام اور تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول و فعل اور تقریر کو بھی شامل ہے ۔
منتہائے سند کے اعتبار سے حدیث کی قسمیں :
(منتہائے سند کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں)
(۱) مرفوع، (۲) موقوف، (۳) مقطو ع
مرفوع :وہ حدیث ہے جس کی سند نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے ۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، یارسول اللہﷺ نے یہ کیا، یا رسول الی نے اسے ثابت و برقرار رکھا ، یا یوں کہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے یہ حدیث مرفوعاً مروی ہے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔
موقوف :وہ حدیث ہے جس کی سند صحابی تک پہنچے۔ جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا اسے ثابت و برقرار رکھا، یا یوں کہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے یہ حدیث موقوفا مروی ہے ، یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر موقوف ہے ۔
مقطو ع :وہ حدیث ہے جس کی سند کسی تابعی تک پہنچے ۔
حدیث واثر:
مشہور یہ ہے کہ موقوف و مقطوع کو اثر کہتے ہیں اور بعض محدثین کے نزدیک اثر صحابہ کرام کے ساتھ خاص ہے۔
امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے بعض علما سے نقل کر کے فرمایا کہ فقہا حدیث مرفوع کو خبر کہتے ہیں اور حدیث موقوف کو اثر کہتے ہیں اور بعض نے حدیث مرفوع پر بھی اثر کا اطلاق کیا ہے ، چنانچہ امام طحاوی نے اپنی کتاب کا نام ” شرح معاني الآثار “ رکھا ہے جو آثار صحابہ کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ پر بھی مشتمل ہے اور امام طبری نے اپنی ایک کتاب کا نام ” تهذيب الآثار “ رکھا ہے حالاں کہ اس میں خاص طور سے احادیث مرفوعہ ہی مذکور ہیں اور احادیث موقوفہ کا ذکر تبعا ہے ۔ امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایسا ہی فرمایا۔
یہ سب اپنی اپنی اصطلاحات ہیں اور اصطلاحات میں اختلاف و اعتراض کی گنجائش نہیں ، ہاں مشہور وہی اصطلاح ہے جو شروع میں مذکور ہوئی۔
مرفوع کی قسمیں:
خیال رہے کہ حدیث مرفوع کی دو قسمیں ہیں: (۱) صریحی ۔ (۲)حکمی ۔ [ پھر ان میں سے ہر ایک کی تین تین قسمیں ہیں۔ (۱) قولی (۲) فعلی (۳) تقریری۔ اس طرح سے اس کی کل چھ قسمیں ہوئیں ۔]۱-
مرفوع صریحی قولی :
صحابی کا یہ کہنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی یا یہ بات کہی یا یہ کہنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یا یہ کہنا: رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم سے روایت ہے۔
۲مرفوع صریحی فعلی :
صحابی کا یہ کہنا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا یا یہ کہنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے ۔-
مرفوع صریحی تقریری :
کسی کا یہ کہنا: میں نے یا فلاں شخص نے حضور کی بارگاہ میں یہ کام کیا [ یا یہ بات کہی اور پھر حضور کا انکار ذکر نہ کرے۔
-۴- مرفوع حکمی قولی: صحابی کا ایسی بات کہنا جس میں اجتہاد کا دخل نہ ہو۔
-۵- مرفوع حکمی فعلی:
صحابی کا ایسا کام کرتا جس میں اجتہاد کا دخل نہ ہو۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے یا نھیں دیکھے بغیر کوئی صحابی ایسا کام یا ایسی با ت نہیں کر سکتا۔ –
مرفوع حکی تقریری:
صحابی کا یہ کہنا: لوگ زمانہ رسالت میں ایسا کرتے تھے ؛ کیوں کہاس کا ظاہر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر اطلاع ہوئی ہوگی۔ اور صحابی کا یہ کہنا: ” یہ سنت ہے ” یہ بھی مرفوع کے حکم میں ہے ؛ کیوں کہ ظاہر ہے کہ سنت سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ بعض حضرات کا اس میں اختلاف ہے؟ کیوں کہ اس میں سنت صحابہ کا بھی احتمال ہے، لیکن یہ احتمال بعید ہے۔اور اگر صحابی کسی فعل کے متعلق یہ حکم کرے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی طاعت یا معصیت ہے تو یہ بھی مرفوع کے حکم میں ہے۔
سند :
ان راویوں کو کہتے ہیں جنھوں نے حدیث روایت کی ۔ اسناد بھی سند کے معنی میںہے اور کبھی سند بیان کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
متن : اس کلام کو کہتے ہیں جس پر سند ختم ہوتی ہے۔
متصل : وہ حدیث ہے جس کی سند پیوستہ ہو کہ اس میں سے کوئی بھی راوی چھوٹا نہ ہو اورنہ چھوٹنےکو اتصال کہتے ہیں۔
منقطع : وہ حدیث ہے جس کی سند میں کہیں سے ایک یا چند راوی چھوٹ گئے ہوں اوراس چھوٹ جانے کو انقطاع کہتے ہیں۔ اور راوی کا چھوٹنا یا تو ابتدا یے سند میں ہوتا ہے یا تابعی کے بعد آخر سند صحابی یا کسی تابعی میں ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی دو قسمیں ہوئیں : (1) معلق (۲)- مرسل
معلق ۔ ابتداے سند سے راوی ساقط ہو تو اسے متعلق کہتے ہیں چاہے ایک راوی ساقط ہویا ایک سے زائد، اور کبھی پوری سند ساقط ہوتی ہے مثلا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صحیح بخاری میں ایسی تعلیقات بکثرت ہیں۔
تعلیق کا حکم : تعلیق کے حکم میں تفصیل ہے ، محدثین نے فرمایا کہ اگر تعلیق کسی ایسی کتاب میں واقع ہو جس میں حدیث صحیح کا التزام کیا گیا ہو جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے تو جن تعلیقات کو عیفہ معروف اور کلمہ جزم سے ذکر کیا گیا ہو مثلاً یوں ذکر کیا: قال فلان يا ذكر فلان تو یہ ان کے نزدیک اس کی سند کے ثبوت پر دلیل ہے اور جن تعلیقات کو صیغہ مجہول اور کلمہ ضعف و تمریض سے ذکر کیا گیا ہو مثلاً : قيل يا يُقَال یا ذُكِرَ ، ان کی صحت میں کلام ہے، لیکن جب وہ ایسی کتاب میں آئی ہیں تو ان کی کوئی نا کوئی اصل ضرور ہوگی جیسا کہ صاحب فتح الباری [ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے ۔ اسی لیے محدثین نے فرمایا ہے : بخاری کی تعلیقات صحیح یا متصل ہیں۔ اور یہ تفصیل ان مقامات میں ہے جہاں اپنے استاذ اور شیخ کے علاوہ کی طرف نسبت کی ہو لیکن اگر اپنے شیخ کی طرف نسبت کر کے کہا ہو جس سے اسے سماع حاصل ہے تو وہ عنعنہ کے حکم میں ہے، تعلیق نہیں ۔ ان شاءاللہ اس کا تفصیلی حکم آگے آئے
گا۔
مرسل : آخر سند سے تابعی کے بعد کوئی راوی چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس حدیث کو مرسل اور اس عمل کو ارسال کہا جاتاہے ۔ جیسے تابعی کا یہ کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بعض محدثین کے نزدیک مرسل منقطع کے ہم معنی ہے، لیکن فقہا و محدثین کے نزدیک پہلی ساصطلاح مشہور ہے ۔
ماخوذ از اصول حدیث اور حالات محدثین